اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ " ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں" (سورہ الفاتحہ ؛4)
اس آیت کا ہماری روزمرہ کی زندگی میں جتنا اہم کردار ہے اتنا ہی ہم اسے روزمرہ کے کاموں میں بھول جاتے ہیں ۔ہر نمازکی ہر رکعت میں اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اللّٰہ ہم بس آپ کی عبادت کرتے ہیں اور صرف آپ سے مدد طلب کرتے ہیں ،صرف آپ ہی ہمارے مددگار ہیں۔اس بات کا اعتراف گویا آپ کی نماز کو مکمل کرتا ہے ،کیونکہ جب تک صورت فاتحہ نہیں پڑھیں گے نماز نہیں ہوگی ،اور صورت فاتحہ اس بات کا اعتراف کیے بغیر نامکمل ہے ۔لہذا یہ محض عربی کی ایک آیت نہیں کہ بس زبان سے بول دیا اور حق ادا ہو گیا ۔اس اقرار کے بعد بحثیت مسلمان ہم پر لازم ہے کہ بس اسی کو ہی مدد کے لیے پکاریں ،بس اسی کی عبادت کرتے ہوئے خودکو اسکی رضا کے سامنے جھکا دیں ۔لیکن المیہ اس بات کا ہے کی ہم نے اسے محض ایک آیت ہی سمجھا ،جسے ہر رکعت میں بس زبان سے ادا کر دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس کے فلسفے کو ہم نے پورا کر دیا ۔اسی نا واقفیت کا یہ عالم ہے کہ ہر رکعت میں اس کے مددگار ہونے کا اقرار اور اعتراف کے باوجود ہم دوسروں سے مدد مانگتے ہیں۔اس کا سب سے بڑا مظاہرہ اولیاء کرام کے دربار اور قبروں پر ملتا ہے۔وہ اولیاء کرام جو خودساری زندگی بس اللّٰہ سے مدد مانگنے کا درس دیتے رہے ،ہم انہی اولیاء کرام سے ان کے مزاروں اور قبروں پر جا کر ان سے مدد طلب کرتے ہیں ۔کیا یہ منافقت نہیں ؟؟
لوگو ، ایک مثال دی جاتی ہے ، غور سے سنو ۔ جن لوگوں کو تم اللّٰہ کے سوا پکارتے ہو وہ سب مل کر ایک مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے ۔ بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو وہ اسے چھڑا بھی نہیں سکتے ۔ مدد چاہنے والے بھی کمزور اور جن سے مدد چاہی جاتی ہے وہ بھی کمزور ۔ (سورہ الحج:73)
اپنے اردگرد معاشرے میں زرا نظر دوڑائیں ، آپ کو بہت سارے ایسے لوگ ملیں گے اور دکھائی دیں گے جنہوں نے مزاروں کو سجدہ گاہ بنا لیا ہے ۔اپنی مشکلات انھیں جا کر بتاتے ہیں اور اس امید کے ساتھ کہ وہ مسائل حل کر دیں گے،اور یہ صورت حال اور انتہا پسندی اس موڑ پر چل پڑی ہے کہ لوگ شرکیہ کلمات تک بول دینے سے گریز نہیں کرتے (نعوذباللہ)
اور یہ مناظر اولیاء کرام کے مزارات اور مقابر پر ان کے عرس اور یومِ وصال کے موقع پر واضح نظر آتے ہیں ۔اور یہ مناظر اولیاء کرام کے مزارات اور مقابر پر ان کے عرس اور یومِ وصال کے موقع پر واضح نظر آتے ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
خبردار ! تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء اور نیک لوگوں کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لیا کرتے تھے ، خبردار ! تم قبروں کو سجدہ گاہیں نہ بنانا ، میں تم کو اس سے روکتا ہوں”
(صحیح مسلم:532)
کتنی واضح انداز میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ،لیکن موجودہ دور میں یہ ہماری قوم کی دین سے دوری کی ایک نمایاں دلیل ہے کہ ہمیں معلوم ہی نہیں کہ کیا صحیح ہے کیا غلط،کسی چیز کا حکم دیا گیا ہے اور کس سے منع کیا گیا ہے ۔
عرس وغیرہ کے موقع پر جس قدر اسلامی حدود کی خلاف ورزی ہو رہی ہوتی ہے اس سے کوئی بھی انجان نہیں ، عرس میں ناچ گانا، دھمال ،بے پردگی کی جس جوش و خروش سے مثال پیش کی جاتی ہے اس سے الامان الحفیظ!
اس وقت چاہیں نماز قضا ہو جائے کوئی پروا نہیں ،لیکن دھمال میں خلل نہیں آنا چاہیے ۔،اور مزید یہ کہ قبروں کو ہی سجدہ گاہ سمجھ بیٹھے ہیں ،کھلم کھلا قبروں کو سجدہ کیا جا رہا ہوتا ہے ،یہ عقیدت نہیں ،یہ تو سراسر شرک ہے ۔
۔ اپنے طور پر ہم اسےاولیاء کرام کے لیے عقیدت کا بہت بڑا اظہار سمجھتے ہیں ،لیکن ہمیں نہیں علم کے عقیدت و احترام کے اس غلط تصور کے طور پر ہم اللّٰہ کی ناراضگی مول لے رہے ہیں۔
قبروں کو سجدہ گاہ اور مسجدیں بنانا تو یہودیوں کا شیوا رہا ہے
۔ ” نبی کریم ﷺ نے اپنے مرض کے موقع پر فرمایا تھا جس سے آپ جانبر نہ ہو سکے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی یہود و نصاریٰ پر لعنت ہو ۔ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنالیا
(صحیح بخاری:1390)
۔جس طرح یہودی اپنے اس عمل کی وجہ سے اللّٰہ کی رحمت سے دور رہے ،یہی انداز مسلمانوں میں جس قدر پایا جانے لگا ہے ،تو ہمارا معاملہ اور ہمارا نتیجہ بھی یہودیوں سے کچھ الگ نہ ہوگا۔جیسا کہ
نبی کریم ﷺ نے اپنے مرض الموت میں یہ بھی فرمایا ،کہ” اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کو اپنی رحمت سے دور کر دیا کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اگر یہ بات نہ ہوتی تو آپ کی قبر بھی کھلی رکھی جاتی لیکن آپ کو یہ خطرہ تھا کہ کہیں آپ کی قبر کوبھی سجدہ نہ کیا جانے لگے ۔
(صحیح بخاری :4441)
جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے روضہ مبارک کے بارے میں فرما دیا کہ سجدہ گاہ نہ بنا دیا جائے تو آج کل کے مسلمان کس جرآت اور بے باکی سے اولیاء کرام کے مزارات کو سجدہ گاہ بنائے جاتے ہیں ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یہودیوں پر اللّٰہ کی لعنت ہو کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے ہاں جب کوئی نیک آدمی مر جاتا ہے تو اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے ہیں ۔ اللّٰہ کے نزدیک یہی سب سے برے لوگ ہیں
(صحیح بخاری:427)
ہم سمجھتے ہیں کہ عقیدت کا یوں انداز ہمیں اللّٰہ کے قریب کر دے گا،جبکہ حدیث کے مطابق یہ سب سے برے لوگ ہیں۔عمل ،ہمارا عمل اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہم کس راستے پر چل پڑے ہیں ،اولیا کرام کے مزارات اور مقابر پر جا جا کے مدد کے لیے پکارنا،ان سے مدد کی امید لگانا،ان کی قبروں کو مسجدیں بنا لینا ،سجدہ گاہ بنا لینا،یہ سب ایسے امور ہیں جن سے صاف ظاہر ہے کہ ہم میں دین کی سمجھ کس حد تک کم ہوتی چلی جا رہی ہے کہ ہمیں شرکیہ کلمات تک کا اندازہ نہیں ہوتا ۔
قرآن میں اللّٰہ کا واضح حکم ہے کہ:
اور اللہ کو چھوڑ کو کسی ایسی ہستی کو نہ پکارنا جو تجھے نہ فائدہ پہنچا سکتی ہے نہ نقصان ۔ اگر تو ایسا کرو گے تو ظالموں میں سے ہوجاوگے (سورہ یونس:106)
کدھر جارہے ہیں ہم؟؟؟اللہ کے ساتھ بغاوت،ہر نماز میں اس کو مددگار پکارنے کا اعتراف،اور عملاً دوسروں سے مدد طلب کرنا،منافقت ؟؟اولیا کے مقام کو اس قدر بلند کرنا کہ شرک اور عقیدت میں فرق نہ رہے ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی نافرمانیاں؟؟یہںی سب مسلمانوں کا مزاج بن چُکا ہے آج ،جس کی وجہ سے ہم اللّٰہ کی رحمت کے مستحق ہونے کا شرف کھو رہے ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی کوتاہیوں کو سمجھیں اور دین پر کامل یقین اور کامل دل کے ساتھ عمل پیرا ہوں۔ورنہ جو یہودیوں کا حال ہوا ہمارا اس سے کچھ مختلف نہ ہوگا
اللہ ہم سب کو دین کی سمجھ عطا کرے آمین ۔
Written by
Hira Zahoor.