Let’s learn about Hazrat Abdul Rehman Bin Auf (R.A)
ایمان کی دولت ایسی دولت ہے جو انسان کو دنیا اور آخرت دونوں میں غنی کر دیتی ہے۔ایسا انسان جسے دنیا میں ہی یہ بشارت نصیب ہو چکی ہو کہ اس کے لیے جنت لازم قرار دے دی گئی ہے ،توکیا ایسے انسان کی نظر میں دنیا اور مال ودولت کی اہمیت کسی آندھی کے بعد رہ جانے والی مٹی سے زیادہ ہوسکتی ہے؟ایسا انسان جو اپنی امارت میں عروج پر ہو،مال ودولت اور دنیا کی ہر آسائش اور فراخی قدموں میں ہو،لیکن حق آجانے کے بعد اپنے مال ودولت کی فراخی کو پسِ پشت ڈال کر،اپنے اثاثوں کی پرواہ کیے بغیر ایمان کی ابدی دولت حاصل کرنے کیلئے پہلی پکار پر ہی لبیک کہہ دے ،وہ تو جنت کا حقدار ہی ہو سکتا ہے۔۔وہ عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ تعالیٰ ولد عوف ابن عبد عوف تھے(581-654ء)۔پیشے کے اعتبار سے بہت مشہور اور کامیاب تاجر۔جن کا شمار اپنے دور کے امیر ترین لوگوں میں ہوتا تھا۔ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعے اسلام لانے والے ابتدائی آٹھ لوگوں میں شامل ہونے کا اعزاز رکھتے ہیں۔ روایتوں میں ملتا ہے کہ اسلام لانے سے پہلے ان کا نام “عبدالامر تھا ۔نبی پاک صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے انہیں عبد الرحمان بن عوف نام مبارک کیا ۔جیسے ہی اسلام قبول کیا ،بہت سے قریش کے سرداروں اور باقی تاجروں نے ان سے تجارت منقطع کر دی،جس کی وجہ سے کافی مالی نقصان اٹھانا پڑا۔امارت جاتی رہی۔ لیکن دل تھا کہ اسلام پر اس قدر ثابت قدم کہ کسی خسارے کی پرواہ نہ کی۔اور تمام مشکلات کے باوجود ڈٹے رہے۔ دیگر صحابہ کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی حبشہ ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ چونکہ مہاجرین مالی طور پر ناتواں حالت میں تھے اس لیے مواخات مدینہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو انصار میں سے ایک صحابی حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھائی بنا دیا ۔حضرت سعد نے اپنا آدھا مال ودولت حضرت عبد الرحمان بن عوف کے سامنے نچھاور کر دیا۔یہاں تک کہ حضرت سعد نے فرمایا کہ میری دو بیویاں ہیں۔میں ان میں سے ایک کو طلاق دے دیتا ہوں۔ عدت کے بعد آپ اس سے نکاح کر لیجیے گا۔ لیکن چونکہ اتنا امیر تاجر رہنے کے باوجود خوداری اور فیاضی کا پیکر تھے،حضرت عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا آپ مجھے بس بازار کا رستہ دکھا دیں اور حضرت سعد سے کچھ بھی نہ لیا،کچھ خشک دہی اور مکھن خرید کر کاروبار شروع کیا۔اور اللّٰہ نے ان کے خلوصِ نیت اور خوداری کی وجہ سے کاروبار میں ایسی برکت ڈالی کہ اس میں دن دگنی رات چوگنی ترقی ہونے لگی۔اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مال ودولت میں جس قدر اضافہ ہوتا گیا اس قدر ان کی سخاوت اور فیاضی میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔بہت سے لوگوں کی کفالت کرتے تھے ۔ اللّٰہ کی راہ میں بیش بہا مال خرچ کرتے گئے۔امہات المومنین کے لیے وضائف مقرر کیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان کی کفالت بھی کرتے رہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد وہ واحد شخصیت ہیں کہ جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کروانے کا شرف حاصل ہے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر “دمت-الجندل”جانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف سے جنت کی بشارت کے مطلق حدیث مبارکہ سننے کی خوشی میں آپ نے اپنے 700کے قریب مال ودولت اور اناج سے لدے ہوئے اونٹ فوراً اللہ کی راہ میں دے وقف کردیے۔آپ نے بالکل شفاف اور سود سے پاک تجارت کا بہترین عملی مظاہرہ پیش کیا۔اور یہ ثابت کیا کہ اللّٰہ کی راہ اور اللّٰہ کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کر کے انسان ہر مشکل سے مشکل حالات میں بھی کس طرح کامیاب انسان بن سکتا ہے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دنیا کی تاریخ کے سب سے زیادہ امیر شخص تھے۔اور یہ سب اس لیے کہ آپ سب مال ودولت اللّٰہ کی راہ میں خرچ کرتے رہے۔اور اللّٰہ اس میں اس قدر برکت نازل کرتا رہا۔آج کل کے دور میں معاشی مشکلات نبٹنے کیلۓ آپ کی زندگی ہمارے لیے عظیم نمونہ ہے۔آپ اللہ کی خاطر کچھ چھوڑتے ہیں تو اللّٰہ وہ آپ کو کی قدر بڑھا کر واپس کرتا ہے۔چاہے آپ کے پاس کتنا ہی مال ودولت ہو ،زیادہ یا کم، اللہ کے لیے وقف کرنا،آپ کے مال میں برکت پیدا کر کے اسے کئی گنا بڑھا کر آپ کو واپس مل جاتا ہے۔ حضرت عبدالرحمان بن عوف کا اسلام قبول کرنے پر مالی خسارہ برداشت کرنا،مدینہ جا کر اپنی خوداری کے زیرِ اثر انصار کی طرف سے مال لینے کے بجائے خود محنت کر کے تجارت دوبارہ شروع کرنا، تجارت میں بغیر سود اور شفافیت اپنا کر کامیاب تاجر بننا اور فیاضی اور سخاوت کا نمونہ پیش کرتے ہوئے اللہ کی راہ میں دل و جان سے مال خرچ کرنا ہمارے لیے بہت بڑا پیغام ہے کہ اللّٰہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وفاداری ہی ہر طرح کی مشکلات سے نکلنے کا واحد حل ہے۔اور جنت جیسی عظیم نعمت اور پھل حاصل کرنا ہے تو اس کے لیے تو انسان کو دنیا میں اللّٰہ کی مان کر چلنا پڑے گا ۔جب آپ اللّٰہ کی راہ میں خرچ کریں گے اللہ کئی گنا بڑھا کر لٹائے گا،جیسے بھی حالات ہوں اللہ کو اور اس کے ہر حکم کو ہر چیز پر ترجیح دیں گے تو دنیا بھی مل جائے گی اور آخرت بھی۔: سورہ تغابن میں اللّٰہ ارشاد فرماتا ہے ؛
“اگر تم اللّٰہ کو اخلاص اور نیک نیتی سے قرض دو گے تو وہ تم کو اس کا دگنا عطا کرے گا اور تمہارے گناہ بھی معاف کر دے گا اور اللّٰہ قدر شناس اور بردبار ہے (سورہ تغابن:17)!
Today’s episode os wonderful. The generosity, enterpreneurship, self dependence everything is a lesson for us ✨
Ma sha Allah beautiful article ????
Indeed he’s an inspiration for every Muslim and a real hero????