“بے شک اللّٰہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلیں”
(سورہ الرعد:11)
آج کل معاشرہ اس دہانے پر آ پہنچا ہے کہ ہم خود ہی اپنے آپ کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ ہرطرف افراتفری کا عالم، مہنگائی کا سیلاب، افلاس کی ہوائیں ،اور بے پناہ معاشی ،سماجی، اخلاقی اور مذہبی مسائل۔۔۔۔۔آخر کیوں….؟کون ہے اس سب کا ذمہ دار…؟ کس کی نااہلی ہے اس صورتحال کی وجہ…؟
بے ساختہ سب کی زبان سے ایک طرح کے کلمات سننے کو ملیں گے۔ “کہ حکومت نااہل ہے،نظام ٹھیک نہیں ہے ،کرپشن کر کے ملک کو لوٹا جا رہا ہے،عوام کا پیسہ کرپشن کی زد میں ہے،
یہی سب وجہ ہے،حکمران صحیح نہیں ہیں، ملک چلانا نہیں آتا”
بس…..؟؟؟
ہماری شکایتیں دوسروں سے شروع ہو کر دوسروں پر ہی ختم ہو جاتی ہیں۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ دوسرا بدل جائے، دوسرا اپنے اپنے آپ کو ٹھیک کر لے تو سب ٹھیک ہو جائے۔ اور اسی نظریہ کے پیشِ نظر ہر کوئی دوسرے کے بدلنے اور ٹھیک ہونے کہ انتظار میں ہے۔خود کو بدلے بغیر،سب کی یہی خواہش ہے کہ حالات بدل جائیں۔
اب مثلاً کرپشن کے عناصر کو ہی دیکھ لیں۔ ہم چاہتے ہیں حکومت ٹھیک ہو جائے، کرپشن نہ کرے، تو ملک سنور جائے گا۔ جب کہ ہر انسان کسی نہ کسی صورت میں، کسی نہ کسی دائرے کار میں،کسی نہ کسی طریقے میں کرپشن کر رہا ہے،جس کو جتنی رسائی اور جتنا موقع ملتا ہے وہ کرپشن کر رہا ہے۔ لیکن ۔۔۔!،لیکن شکایت صرف کس سے ہے؟۔۔کہ حکمران کرپشن کر رہے.
یہ شکایت کبھی دور نہیں ہو سکتی کیونکہ ہم خود تو کرپشن چھوڑ نہیں رہے ،نہ خود کو بدلیں گے، حکمران کیوں رکیں کرپشن سے۔ جب ایک ریڑھی لگانے والا مزدور تک کرپشن نہیں چھوڑ رہا۔جب پھل و سبزیاں وغیرہ فروخت کرتے وقت وہ گلے سڑے پھل صاف پھلوں کے نیچے چھپا کر چلاکی سے بیچ رہا ہے،تو پھر اسی ریڑھی پر کھڑا ہو کے وہ یہ شکایت کیوں کر رہا ہے کہ ملک میں کرپشن بہت ہو رہی،حکمران اپنی زمہ داریاں نہیں ادا کر رہے ،انصاف اور ایمانداری کا تقاضا کس بنیاد پر آخر جب وہ خود بے ایمانی کر رہا ہے۔کیا اس کا خود کا عمل کرپشن نہیں ہے….؟
ایک دکاندار کو ناپ تول میں کمی کرتے وقت اپنی کرپشن یاد نہیں آتی ،جب اسے اسی وجہ سے قومِ شعیب پر آنے والے عذاب کا خیال نہیں رہتا، جب خراب مال فروخت کرتے وقت اسے اللّٰہ بھول جاتا ہے، جب ایک مزدور اپنے کام کو پورا کئے بغیر اپنی اجرت پوری لیتا ہے ،جب ایک ٹیچر اپنے پڑھانے کے وقت کو پوری طرح طلبا پہ صرف نہیں کرتا اور تنخوا پوری وصول کرتا ہے،جب ایک طالب علم اپنی پڑھائی کے وقت کو فضول کاموں میں صرف کر تا ہے اور اپنے والدین سے پڑھائی کے لیے جیب خرچ پوری لیتا ہے، جب معاشرے کا ہر ہر فرد اپنی اپنی زمہ داری ادا کرنے میں کرپشن میں لگا ہوا ہے تو پھر شکایت صرف اور صرف حکومت سے کیوں…؟
یاد رکھیں کہ جب ایک قوم اللّٰہ کی نا فرمانی کو مول لے چکی ہوتی ہے تو اللّٰہ ناراضگی کی صورت میں اس قوم پر ظالم اور نااہل حکمران مسلط کر دیتا ہے ۔
یہی ہمارے اعمال ہی ہیں جس کی بنا پر نااہل حکمران اور ان کا کرپشن کی صورت میں ظلم و ستم عوام پر مسلط
ہوتا ہے ۔
ہم بھول چکے ہیں یہ حدیث مبارکہ کہ
“جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے اس پر قحط سالی ،سخت محنت اور حکمرانوں کا ظلم و ستم مسلط کر دیا جاتا ہے:”
(سنن ابنِ ماجہ:4019)
بربادی کی پروانہ سنا دیا گیا ہے لیکن ہم غفلت میں ہیں اور بھول گئے ہیں اس فرمانِ الٰہی کو
“بربادی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے “
(سورہ المطففین:1)
جتنی زیادہ آپ ناجائز ذرائع سے مال ودولت حاصل کرنے میں لگے رہیں گے اتنی زیادہ تنگدستی آپ کا مقدر بنتی جائے گی،لیکن ہم بھول گئے ہیں اس حدیث مبارکہ کو:
“جب کوئی قوم ناپ تول میں کمی کرنے لگتی ہے تو ان پر روزی تنگ کر دی جاتی ہے”
(موطا امام مالک:1020)
کتنے صاف اور واضح الفاظ میں اللّٰہ نے ہمیں قرآن میں تاکید کی اور قومِ شعیب پر عذاب کا واقعہ بھی ذکر کیا کہ ہم محتاط رہیں لیکن پھر بھی ہم خود کو بدلنے کے لیے تیار نہیں
“اے میری قوم انصاف سے ناپ اور تول کو پورا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں فساد نہ مچاؤ
(سورہ ہود:85)
اس سب کے باوجود مال ودولت کی حوس نے ہمیں بھلا دیا ہے کہ ہم خود کس قدر اپنی زمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کر کے کرپشن کر رہے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ہر کوئی بس اپنے اپنے انداز میں کرپشن میں ملوث ہے۔حکمرانوں کو جو عوام کی طرف سے پیسہ مل رہا ،وہ اس سے اپنے خزانے بھرنے
میں لگیں ہیں۔اور جہاں تک عام آدمی کی بات ہے تو ناقص مال فروخت کرنا، ناپ تول میں کمی ،غیر قانونی کاموں میں رشوت لینا، یہاں تک کہ اب تو معملات اتنے سنگین بنا دیے گئے ہیں کہ بعض حالات میں جائز حق کے حصول کیلئے بھی رشوت دینے پر مجبور کیا جاتا ہے لوگوں کو، اللّٰہ کے عذاب سے بے خوف ہم مال ودولت کی حوس میں مگن ہو کر دنیا کی طلب میں بہت آگے نکل گئے ہیں کہ اب غلط صرف دوسرے لگتے ہیں ہم خود اپنے کاموں میں کس قدر بے احتیاطی اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر کے کرپشن کر رہے ، کوئی سوچنے کو تیار نہیں۔غرض ہر کوئی،جو اپنی اپنی ذمہ داری صحیح طریقے سے ادا نہیں کرتا وہ کرپشن کر رہا ہے۔چھوٹے چھوٹے پیمانے پر کی جانے والی کرپشن کا وبال ہی پوری قوم پر کرپٹ حکمرانوں کی بڑے پیمانے پر کی جانے والی کرپشن کی صورت میں نازل ہوتا ہے ۔اگر اپنے حالات بدلنے ہیں ،ملک سنوارنا ہے تو ہمیں خود اپنے آپ سے دیانتداری کا آغاز کرنا ہوگا۔۔جب تک خود کو نہیں بدلیں گے ،ملک سے کرپشن ،بے انصافی ،بددیانتی کا خاتمہ ممکن نہیں۔
مولانا ظفر علی خان نے کیا خوب کہا ہے
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خود خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا۔
Written by: Hira Zahoor
Ma sha Allah a great reminder for all of us????
More power to you????