Reservoir of knowledge.

Let’s learn about Hazrat Ali (R.A)

ہمارے چوتھے ہیرو ہیں صاحب نحج و البلاغہ، شیرِ خدا، حضرت علی المرتضیٰ ۔ آپ کا لقب حیدر، کنیت ابو عبداللہ اور ابو تراب تھی۔ آپ کے والد ماجد جناب ابی طالب آپ صلی الله عليه وسلم کے حقیقی چچا تھے۔ آپ نجیب الطرفین ہا شمی تھے۔ حضرت علی حضرت عثمان کی شہادت کے بعد چوتھے خلیفہ منتخب ہوئے۔آپ کی حیاتِ جاودانی کے چند پہلو درج ذیل ہیں

۔۱۔ ابو تراب کی کنیت روایت میں آتا ہے کہ حضرت علی حضرت فاطمہ سے ناراضگی پر مسجد میں لیٹے تھے۔ اس دوران کچھ مٹی آپ کے بدن پر لگ گئی۔ آپ صلی الله عليه وسلم مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا اے ابو تراب اٹھ ۔ تب سے یہ کنیت مشہور ہو گئی. آپ اس نام کو بہت پسند فرماتے تھے اور جب کوئی آپ کو ابو تراب کہہ کر پکارتا تو بے ساختہ خوشی کا اظہار کرتے۔ ۲

۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زیرِ سایہ کفالت :مکہ مکرمہ میں قحط آن پڑا۔ حضرت ابی طالب کا خاندان کافی وسیع تھا اور ان کے معاشی حالات اچھے نہیں تھے۔ حضرت محمد صلی الله عليه وسلم نے حضرت عباس کو مشورہ دیا کہ چچا کی مدد کے لیے ان کے بچوں کی کفالت کی جائے۔ چنانچہ حضرت علی کی کفالت آپ صلی الله عليه وسلم نے اپنے ذمے لےلی۔ ۳

۔ قبولِ اسلام آپ نے نبی کریم صلی الله عليه وسلم اور حضرت خدیجہ کو عبادت میں مشغول دیکھا تو ان سے اس کے متعلق استفسار کیا۔ آپ صلی الله عليه وسلم کے بتلانے پر کچھ دیر میں اسلام قبول کیا۔ اس وقت آپ کی عمر دس برس تھی۔ جب کبھی نبی کریم صلی الله عليه وسلم عبادت کے لیے کسی تنہا گوشے میں تشریف لے جاتے تو حضرت علی وہاں پہرہ دیا کرتے تھے ۔۴

۔ امانتوں کا رکھوالا:آ پ صلی الله عليه وسلم کو مدینہ ہجرت کا حکم آ چکا تھا۔ قریش مکہ نے آپ صلی الله عليه وسلم کو قتل کرنے کا (نعوذ باللہ) منصوبہ تیار کیا تھا۔ اس موقع پر آپ صلی الله عليه وسلم کے پاس بہت ساری امنتیں جمع تھیں۔ آپ صلی الله عليه وسلم نے وہ امانتیں حضرت علی کے حوالے کیں اور انہیں سب لوگوں کو لوٹا کر مدینہ آنے کی تلقین کی۔ اس طرح آپ نے جانثاری کی عمدہ نظیر قائم کی۔۵

۔ مواخاتِ مدینہ: آپ صلی الله عليه وسلم نے مدینہ میں مہاجرین اور انصار کے درمیان یھائی چارہ قائم کیا لیکن حضرت علی کو کسی کا بھائی نہیں بنایا۔ جب حضرت علی آپ صلی الله عليه وسلم کی خدمت میں مدعا لے کے داخل ہوئے تو آپ نے انہیں اپنا بھائی بنا لیا۔

۶۔ شجاعت و بہادر یآپ شجاعت و بہادری میں بے مثال تھے۔ اس وجہ سے آپ کو شیرِ خدا بھی کہا جاتا تھا ۔ آپ کی تلوار ذوالفقار کی ایک جھنکار دشمن پر ہیبت طاری کرنے کے لیے کافی تھی۔ آپ کی بہادری کی چند جھلکیاں ذیل میں ہیں غزوہ بدر کے موقع پر جب مسلمان اور کفار کے لشکر صف آرا ہوئے تو کفار کی جانب سے عتبہ، شیبہ اور ولید میدان میں آئے۔ ان کے مقابلے میں مسلمانوں کی جانب سے حضرت حمزہ، حضرت عبیدہ بن ابی حارث اور حضرت علی آئے۔ حضرت علی کا مقابلہ ولید سے ہوا اور آپ نے اسے جہنم واصل کر دیا۔غزوہ احد کے موقع پر آپ نے ابو سعد بن ابی طلحہ سے مقابلہ کیا اور اسے جہنم واصل کیا۔ بعد میں جب مسلمانوں کو وقتی پسپائی ہوئی تو کفار کی جماعت نے آپ صلی الله عليه وسلم کو گھیر لیا اور آپ صلی الله عليه وسلم اوجھل ہوئے۔ حضرت علی نے تلوار سونتی اور جو کافر رستے میں آیا اسے ہٹایا اور آپ صلی الله عليه وسلم تک پہنچ گئے اور آپ صلی الله عليه وسلم کو گھیرے میں لیے تمام کفار کو انجام تک پہنچایا۔ اس موقع پر آپ صلی الله عليه وسلم نے فرمایابےشک علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں آپ غزوہ بدر الموعد ، حمرۃالاسد ، بنی نضیر اور بنی مصطلق میں اسلامی لشکر کے علم بردار تھے۔غزوہ احزاب کے موقع پر ایک جگہ خندق کی چوڑائی کم تھی اور عمرو بن عبدود اسے پھلانگ کر مسلمانوں کی صفوں میں گھس آیا۔ عمرو طاقتور پہلوان تھا۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ پورے گھوڑے کو اٹھا کر پٹخ سکتا تھا۔ اس نے مسلمانوں کو للکارا اور خضرت علی آگے بڑھے اور سخت مقابلے کے بعد اس کو شکست دی۔غزوہ خیبر کے موقع پر آپ صلی الله عليه وسلم نے اپنی زرہ انہیں پہنائی اور ذوالفقار عطا کی۔ مرحب جو یہودی تھا سے مقابلے کے دوران آپ نے یہ رجز پڑھا۔”میں وہ ہوں کس کا نام میری ماں نے حیدر رکھا ہے جھاڑی کے شیر کی طرح مہیب اور ڈراؤنا میں دشمنوں کو نہایت تیزی کے ساتھ قتل کر دیتا ہوں”۷

۔ مقام و مرتبہ :حضرت علی کے نکاح میں آپ صلی الله عليه وسلم کی سب سے عزیز صاحبزادی خاتونِ جنت حضرت فاطمہ الزہرہ آئیں۔ غزوہ تبوک کے موقع پر آپ صلی الله عليه وسلم نے حضرت علی کو مدینہ میں رکنے کا حکم دیا۔ حضرت علی اس پر تذبذب کا شکار تھے تو آپ صلی الله عليه وسلم نے فرمایا میں تمہیں اسی طرح چھوڑ کے جاتا ہوں جیسے موسیٰ ہارون کو بس فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔آپ صلی الله عليه وسلم نے اپنے وصال سے پہلے وصیت کی “اے علی حوض کوثر پر تم مجھ سے ملو گے۔ میرے بعد بہت ناگوار باتیں تمہیں پیش آئیں گی مگر تم دل تنگ نہ کرنا اور صبر کرنا اور جب دیکھو کہ لوگ دنیا کو پسند کرتے ہیں تو تم آخرت کو اختیار کرنا.”۸

۔ صاحبِ علم آپ کو تصوف میں کمال کا درجہ حاصل تھا۔ علمِ تصوف کا ماخذ آپ کو سمجھا جاتا ہے آپ نے فرمایا”ایمان چار ستونوں پر قائم ہے۔ صبر ، یقین ، عدل ، جہاد۔” پھر صبر کی دس اقسام بیان کیں۔آپ صوفیانہ نکات بیان فرماتے۔آپ شعر و سخن کا ذوق بھی رکھتے تھے۔ آپ فنِ خطابت میں میں مہارت رکھتے تھے اور لوگوں کو قائل کرنے کے فن سے خوب آشنا تھے۔ علوم و فنون میں آپ بے مثال تھے۔ آپ نے علمِ نحو کی ابتدا کی تاکہ قرآن کے اعراب اور تلفظ میں کوئی مغالطہ نہ رہے۔ آپ نے زبان کے بنیادی ضابطے وضع کیے۔آپ نے علمی فیضان نبی کریم سے حاصل کیا۔ آپ فقہی معاملات پر عبور رکھتے تھے۔ قدر کی آپ نے نہایت خوبصورت وضاحت کی۔قرآن پاک کی سورتوں ، تفاسیر اور اسرار و رموز کے ماہر سمجھے جاتے تھے ۔ آپ صلی الله عليه وسلم نے آپ کو علم کے شہر کا دروازہ قرار دیا۔ ۹

۔ اخلاق :آپ نہایت اعلیٰ اخلاق کے حامل تھے ۔ تواضع و انکساری میں اپنی مثال آپ تھے۔ زہد کا یہ عالم تھا کہ اپنے لیے گھر نہیں بنایا۔ بیت المال میں جو ہوتا تقسیم کر دیتے اور فرماتے اے دنیا مجھے فریفتہ نہ کر۔ اکثر بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھنے پڑتے۔

۱۰۔ مشعلِ راہ :حضرت علی کی حیات سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ ہمیں حق کا ساتھ دینے کے لیے کسی بھی رکاوٹ کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے. اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان رکھنا چاہیے اور یہی ایمان ہمیں قلبی مضبوطی عطا کرتا ہے۔ اپنی طاقتوں، قوتوں کو الله کی راہ میں لگا دینا چاہیے۔ اپنے علم کے بہترین استعمال کا طریقہ ہمیں حضرت علی سے پتہ چلتا ہے۔ اپنے دوستوں کے لیے جان کی پرواہ نہ کرنا ہمیں حضرت علی کی زندگی سکھاتی ہے۔ بہترین فہم و فراست کے حامل، اخلاقیات سے مالا مال شیر خدا بے شک ہمارے لیے عمدہ ترین مثال ہیں۔

Written by Eman Fatima.

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

0 thoughts on “Reservoir of knowledge.”

Aslamualykum!
Scroll to Top