Role of media in promoting vulgarity
آج کے فتنہ پروری کے دور میں بے حیائی اور عریانی عروج پہ ہے ۔ فحاشی کو گھر گھر پہنچانے میں ہمارا میڈیا اک قوی کردار ادا کر رہا ہے ۔ مسلمانوں کو تباہ کرنے کے لیے کتنی تحریکیں متحرک ہیں اور یہ ڈائریکٹ وار نہیں کرتی بلکہ آہستہ آہستہ ان چیزوں پہ وار کر رہی ہیں جن کی وجہ سے اک مسلمان مسلمان کہلاتا ہے۔ مسلمانوں کا اک سب سے بڑا ہتھیار حیا ہے ۔ اس لیے مسلمانوں کی حیا پہ وار کیا جا رہا ہے کہ کسی طرح مسلمانوں میں حیا ختم ہو جائے ۔ حیا اور ایمان لازم و ملزوم ہیں ۔ اگر حیا نہ ہو تو ایمان بھی نہیں رہتا ۔ ایمان نہ ہو تو کیا مسلمان باقی رہتا ہے ؟؟؟ یعنی اک مسلمان کو ختم کرنا اتنا آسان ہے کہ حیا ختم کر دو اور مسلمان برباد۔ جب ایمان ہی نہ ہوگا تو اک خالی جسم غیر اسلامی تحریکوں کا کیا بگاڑ لے گا۔
حضرت عبداللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہما سے روایت ہے ، نبی ﷺ نے فرمایا :’’ اللّٰہ تعالیٰ جب کسی آدمی کو تباہ کرنا چاہتا ہے تو اس سے حیا کو چھین لیتا ہے ۔ اور جب اس سے حیا چھین لیتا ہے تو تجھے وہ شخص نا پسندیدہ اور قابل نفرت محسوس ہوتا ہے ۔ جب وہ ناپسندیدہ اور قابل نفرت ہو جاتا ہے تو اس سے دیانت داری چھین لی جاتی ہے ۔ جب اس سے دیانت داری چھن جاتی ہے تو تو اسے خائن اور خیانت میں مشہور دیکھتا ہے ۔ جب وہ خائن اور خیانت میں مشہور ہو جاتا ہے تو اس سے رحم دلی چھن جاتی ہے ۔ جب اس سے رحم دلی چھن جاتی ہے تو تو اسے لعنتی اور لوگوں سے اس پر لعنتیں پڑتی دیکھتا ہے ۔ جب تو اسے لعنتی دیکھے اور اس پر لعنتیں پڑ رہی ہوں تو اس کی گردن سے اسلام کا قلادہ اتر جاتا ہے ۔
(ابن ماجہ:4054)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میڈیا ایسا کون سا وطیرہ استعمال کر رہا ہے کہ مسلمانوں میں حیا ختم کر دی جائے ۔ جواب بہت واضح ہے ۔ اک دم سے کسی انسانی دماغ کو کسی غیر اخلاقی چیز میں نہیں پھنسایا جاسکتا ہے اس کے پیچھے اک مکمل پلاننگ ہوتی ہے ۔
سب سے پہلے تو اک چیز کے بارے میں تجسّس عام کیا جاتا ہے ۔ تجسّس کے عالم میں دیکھ لیا ہے یہاں ابھی حیا بھی زندہ ہے اور ضمیر بھی تو یہاں سے واپسی ممکن ہے۔
اگلا مرحلہ ہوتا ہے کسی چیز کی عادت میں مبتلا کرنا کہ اگر کوئی انسان تجسّس کے عالم میں دیکھ لے تو اس کو مزید تجسّس ہو ۔ اس تجسّس کو ہوا دینے کے لیے غیر اخلاقی چیزوں کو فنٹیسائز کیا جاتا ہے ۔ مختلف ذریعوں سے ترسیل کی جاتی ہے ۔ معاشرے میں عام کیا جاتا ہے تاکہ اگر اک انسان دیکھے تو اس کو برائی برائی نہ لگے ۔ اس طرح بار بار دیکھنے سے انسان عادت میں مبتلا ہو جاتا ہے اور عادت جان لیوا ہوتی ہے ۔
اگلا مرحلہ ہوتا ہے لت لگنے کا کہ انسان اس غیر اخلاقی چیز کے بغیر رہ نہ سکتا ۔ زرا غور کریں کہ انسانی دماغ کو جکڑا کیسے جا رہا ہے ۔
اب اگلا سوال یہ ہے کہ اک غیر اخلاقی چیز کو معاشرے میں عام کیسے کیا جائے۔ اس کا جواب بھی بہت سادہ ہے کہ اس غیر اخلاقی بات کو رواج بنا دیا جائے ۔ رواج بن جائے گا تو ہر شخص دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملانے کے چکر میں اس چیز میں مبتلا ہوگا اور جو نہیں کرے گا اس کو تنگ نظر سمجھا جائے گا اب تنگ نظر تو کوئی نہیں لگنا چاہیے گا نہ ۔
عام کرنے کے بعد اک غیر اخلاقی چیز کو صحیح بھی تو ثابت کرنا ہے نہ ورنہ تو اس کا فائدہ نہیں ۔ اب اس غیر اخلاقی چیز کو صحیح ثابت کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے کہ مغربی ممالک کی مثالیں دی جاتی ہیں کہ یہ سب وہاں عام ہے اور جو لوگ کرتے وہ بڑے اچھے سمجھے جاتے ہیں ۔ بس پھر ہماری مغربی دنیا کی شیدائی عوام بغیر سوچے سمجھے اس کے پیچھے چل پڑتی ہے ۔
اب جب ہر جگہ فحاشی عام ہو گئی ہے تو کیسے بچا جائے ۔
اس کا پہلا حل یہ ہے کہ ہر وقت یہ بات ذہن میں رکھی جائے کہ اللّٰہ دیکھ رہے ہیں کوئی دیکھے نہ دیکھے لیکن اللّٰہ کو معلوم ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں ۔
اور برائی برائی ہی ہے چھوٹی ہو یا بڑی واضح ہو یا پوشیدہ ۔لوگوں کو بے شک پتہ نہ چلے لیکن اللّٰہ کو تو پتہ نہ ۔
قُلۡ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الۡفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنۡہَا وَ مَا بَطَنَ وَ الۡاِثۡمَ وَ الۡبَغۡیَ بِغَیۡرِ الۡحَقِّ وَ اَنۡ تُشۡرِکُوۡا بِاللّٰہِ مَا لَمۡ یُنَزِّلۡ بِہٖ سُلۡطٰنًا وَّ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ
آپ فرمایئے کہ البتہ میرے رب نے صرف حرام کیا ہے ان تمام فحش باتوں کو جو اعلانیہ ہیں اور جو پوشیدہ ہیں اور ہر گناہ کی بات کو اور ناحق کسی پر ظلم کرنے کو اور اس بات کو کہ اللہ کے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک ٹھہراؤ جس کی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس بات کو کہ تم لوگ اللہ کے ذمے ایسی بات نہ لگا دو جس کو تم جانتے نہیں ۔
(الاعراف:33)
دوسرا حل یہ ہے کہ اپنے آپ کو نیک کاموں میں مصروف رکھا جائے کہ شیطان ہمیں گمراہ نہ کر سکے کہ جب روز ایمان ری فریش ہوگا تو شیطان کے وار اتنے اثر نہیں کریں گے ۔
اِنَّمَا یَاۡمُرُکُمۡ بِالسُّوۡٓءِ وَ الۡفَحۡشَآءِ وَ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ
“وہ تمہیں صرف برائی اور بےحیائی کا اور اللّٰہ تعالٰی پر ان باتوں کے کہنے کا حکم دیتا ہے جن کا تمہیں علم نہیں ۔ “
(البقرہ:169)
اُتۡلُ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ ؕ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ لَذِکۡرُ اللّٰہِ اَکۡبَرُ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ مَا تَصۡنَعُوۡنَ
جو کتاب آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھئے اور نماز قائم کریں یقیناً نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے بیشک اللّٰہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے اللّٰہ خبردار ہے ۔
(العنکبوت :45)
تیسرا حل یہ ہے کہ ہمیں سوچنا چاہیے کہ صرف اللّٰہ کو ہماری ترجیح ہونا چاہیے اور ہمیں فقط وہ کام کرنے چاہیے جن کا اللّٰہ نے حکم دیا ہے اور ہر اس کام سے اجتناب کرنا چاہیے جو اللّٰہ کو ناپسند ہے ۔
وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَ لۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ
“جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب بھی وہ مجھے پکارے قبول کرتا ہوں اس لئے لوگوں کو بھی چاہیے وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے ۔ “
(البقرہ:186)
ہمیں اس بات پہ پختہ یقین رکھنا چاہیے کہ اللّٰہ نے جن احکام سے منع کیا ہے وہ ہمارے لیے نقصان دہ ہیں اور ایسے کاموں سے خواہ وہ واضح ہوں یا مخفی سے اجتناب کرنا ہے جو ہمارے رب کی ناراضگی کا سبب بنیں ۔ اللّٰہ سے دعا ہے کہ اللّٰہ ہمیں سب فتنوں اور شیطانی حربوں سے محفوظ رکھیں ۔ آمین ۔
Written by Muskan Malik
Masha Allah
Absolutely right
Well Pened
Can’t hold myself to give a complete read after opening it. We need more content like this.
واقعی یہ دنیا کی زندگی صرف کھیل اور تماشا ہے۔۔۔ اگر کھو گئے اس دنیا کی لغو میں تو آخرت ہی کھو دیں گے۔۔۔
الله بچائے ہم سب کو۔۔۔
آمین