Hero of middle East.

Let’s learn about Hazrat Saad Bin Abi Waqas (R.A)

ایمان اور محبت الہی کے کس عظیم اور قابلِ تعریف درجہ پر فائز ہوگا وہ شخص کہ جس کیلیے اللّٰہ کے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی ہو کہ:”اے اللّٰہ اس کی دعا قبول فرما جب بھی یہ دعا مانگے” اور جس انسان کی دعاؤں کی قبولیت کی دعا آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہو تو ان دعاؤں کا حصول کیسے رد ہو سکتا ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس انسان کو یہ شرف بخشا ہو تو بھلا اس انسان کے ایمان کی مضبوطی ،اس کی اسلام سے محبت، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جانثاری، تقویٰ کا عروج، روح کی پاکیزگی ،خلوص نیت اور خشیتِ الہی سے مالامال دل کیونکر نہ اس دنیا میں ہی جنت کی بشارت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اعزازات کا حقدار ٹھہرا ہوگا وہ۔یہ عظیم انسان حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں (595 -674ء)جو کہ حضرت سعد بن مالک بن عحیب کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔جو کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے توسل سے اسلام لانے والے ابتدائی آٹھ لوگوں میں ہونے کی نعمت سرشار ہوئے۔اسلام لانے کے عوض انھیں اپنے ہی والدین کی طرف سے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ان کے والدین انھیں سزا کے طور پر کئی کئی دن بھوکا پیاسا رکھتے۔انھیں اسلام کی نعمت سے دستبردار ہونے پر بہت مجبور کیا۔لیکن وہ اب حق آجانے کے بعد اس سے روگرداں ہونے والے نہ تھے۔ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لے گئے کہ والدین کا شرک کرنا اور حضرت سعد بن ابی وقاص کے ساتھ ظلم،ان کے ساتھ حسن سلوک کے آداب اور ان کی فرمانبرداری کے آڑے آ رہا ہے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس مسلئہ کے موقع پر قرآن اللّٰہ نے آیات نازل کیں۔

سورہ العنکبوت:8 اور سورہ لقمان:15 میں اللّٰہ ارشاد فرماتا ہے کہ:

“اگر وہ (والدین)میرے ساتھ کسی کو شریک کرنے کے مرتکب ہوں جس کا تمہیں علم نہ ہو تو ان کا کہنا نہ مانو”

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تیر اندازی میں غیر معمولی ہنر اور کمال حاصل تھا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ پہلے عربی تھے جنہوں نے اپنے تیرکمان کے ذریعے ایک کافر کا اسلام کی راہ میں پہلا خون بہایا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس جرت کو خوب سراہا گیا اور یہ عمل کافروں کیلئے ایک واضح تنبیہ تھی کہ وہ مسلمانوں کو کمزور نہ سمجھیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جنگِ بدر میں بھی اپنے اس ہنر کے ذریعے کمال بہادری دکھائی۔ان کے بھائی حضرت عمیر بن ابی وقاص میں بھی کم عمری کے باوجود جہاد کی لگن اور شہادت کی خواہش سے اس قدر سرشار تھے کہ انھوں نے بھی جنگ میں حصہ لینے کی ضد کی۔اور جام شہادت نوش فرمایا۔ جنگ احد کے موقع پر جیسے کہ مسلمان چونکہ وقتی تذبذب کا شکار ہو گئے تھے،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس عملے میں شامل تھے جو کہ کافروں پر حملہ کر رہا تھا ،دیگر صحابہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بذاتِ خود بھی حضرت سعد کو تیر پکڑ پکڑ کر دے رہے تھے۔اس وقت آپ (ر۔ض) کی جرت اور اسلام کیلئے جانثاری دیکھتے ہوئے، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک اور اعزاز بھی ملا۔نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ؛

“سعد تیر چلاؤ ،تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں “

(صحیح مسلم 1876/4)+(صحیح بخاری 93/6)

کیا ہی شان پائی ہے اس عظیم کمانڈر،غیر معمولی تیر انداز،اور قابلِ ذکر جنگجو نے۔ قادسیہ کی جنگ میں آپ کا کردار عظیم سپہ سالار کے طور پر نمایاں رہا۔قیصروکسرا کے دارالحکومت کی وفتح، آپ کے جنگی صلاحیتوں کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیصروکسرا پر مسلمانوں کی حکومت کی پیشنگوئی کو عملی جامہ پہنانے میں بہت کار آمد ثابت ہوئیں ۔آپ کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا گیا،اگر یہ کہا جائے کہ وسطی ایشیا اور برصغیر میں اسلام لانے میں آپ کو نمایاں مقام حاصل ہے اور ان ممالک میں اسلام آپ کے توسل سے آیا تو یہ بے جا نہ ہوگا۔۔دنیا کی رغبت سے پاک دل کے مالک ،ہر رات سونے سے پہلے اپنے دل کو ہر طرح کے کینہ اور کدورت سے پاک کرتے ہوئے ،لوگوں کو معاف کر کے سوتے تھے۔ان کا یہ عمل اس قدر پسندیدہ تھا اللّٰہ کو،کہ روایتوں میں ذکر ملتا ہے کہ ایک مرتبہ مجلس میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے اور فرمایا کہ” ابھی ایک شخص یہاں داخل ہوگا جو جنت سے چلتے ہوئے آئے گا” ،اور وہ شخص حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھےآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک بیٹا عمر بن سعد اسلام کے درخشاں چراغ کی ولدیت حاصل کرنے کے باوجود اس نعمت سے ہاتھ دھو بیٹھا۔روایتوں میں ملتا ہے کہ اس نے یزید سے چند دنیاوی فائدے کی بنا پر حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قتل سے اپنے ہاتھ رنگ لیےحضرت سعد بن ابی وقاص نے عشرہ مبشرہ میں موجود صحابہ کرام میں سے سب سے آخر میں وفات پائی۔ اس لیے آپ کو کئی فتنوں بھرا دور بھی دیکھنا پڑا ۔اہل بیت سے لگاؤ کی صورت میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے فتنوں کی بھرپور مخالفت کی۔اپنی ساری زندگی کو اسلام کے پھیلاؤ کیلیے وقف کر کے عمر کے آخری حصے میں کفایت کی زندگی گزاری۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی میں ہمیں اسلام کی کامیابی کے لیے ہر طرح سے خدمات ملتی ہیں چاہے وہ جنگی خدمات ہوں،مالی خدمات ہوں،جانی خدمات ہوں،اصلاحی خدمات ہوں یا غرض حکومتی خدمات ہوں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی چیز کو بھی ایمان اور اسلام سے قیمتی نہیں جانا،اب چاہے ایمان کی خاطر اپنے ماں باپ کی شفقت قربان کرنی پڑی ،اپنا مال اللّٰہ کی راہ میں خرچ کرنا پڑا،اپنے ہنر کو اللّٰہ کی راہ میں استعمال کرنا پڑا، آپ نے کسی چیز سے دریغ نہیں کیا یہاں تک کہ اپنے نافرمان بیٹا عمر بن سعد بھی ان کو ایمان کی دولت سے زیادہ عزیز نہ تھا۔۔!ہماری قوم کے لیے ایک بہت بڑی مشعل راہ ہے اس میں کہ اللّٰہ کی محبت کے آگے ساری چیزیں بے قیمت ہیں۔جب بات دین ایمان کی آ جائے تو کسی بھی قسم کی قربانی سے پیچھے نہیں ہٹنا۔ آپ کا رب آپ سے بہت محبت کرتا ہے ،تو اللّٰہ کا ہمارے پر حق ہے کہ ہم بھی اس سے ہر چیز سے بڑھ کر محبت کریں۔یہ دنیا اور اس کے فائدے اس آخرت اور جنت کے بدلے بہت ادنیٰ ہیں،جو اللّٰہ نے اپنے نیک بندوں کے لیے تیار کر رکھی ہے!

Written by Hira Zahoor.

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Aslamualykum!
Scroll to Top