دنیا کی بہت ساری حقیقتیں ہیں کہ جس کو جھٹلانا ممکن نہیں۔
اس میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہر شخص کا قیام اس دنیا میں ایک
مخصوص مدت کے لیے ہے۔ ایک نہ ایک دن ہر شخص کو موت کو گلے لگانا ہے اور مٹی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر ابدی نیند سو جانا ہے۔ کسی شخص کے مرگ پر ہونے والی رسومات اور اسلام کی روشنی میں ان کی حقیقت کا احاطہ کرنا اس تحریر کا بنیادی مقصد ہے
کسی گھر میں مرگ پر جو چیز سب سے زیادہ دیکھنے میں آتی ہے وہ ہے غم کا اظہار اور اس اظہار کے مختلف طریقے ہیں۔ خواتین بین کرتی ہیں جس میں چند مخصوص جملے استعمال کر کے مرحوم کی خوبیوں کو اور احباب کے رنج و غم کو بیان کیا جاتا ہے۔ اس طرح کی نظیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ملتی ہے جب کچھ خواتین جن کو ردالی کہا جاتا تھا ان کو مرگ کے موقع پر بلایا جاتا اور وہ مخصوص جملے گاتیں جس سے رونے میں آسانی رہتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک بیٹے کی وفات پر ایک ردالی ام خنساء کو طلب کیا تھا۔ لیکن آج کل ان جملوں میں شرکیہ کلمات استعمال کیے جانا عام بات ہو گئ ہے جو قطعاً درست نہیں
اس کے علاوہ نوحے کرنا اور گریبان پھاڑنا بھی درست نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک عزیز کی وفات پہ کہا کہ آنکھ روتی ہے اور دل پریشان ہے لیکن زبان سے وہی نکلے گا جس پہ رب راضی ہو
موت کے وقت اور بعد میں مصحف سینے پر اور سرہانے رکھنا اور موت سے تجہیز و تکفین تک تلاوت کرنے کی کوئ شرعی حیثیت نہیں ملتی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میت کو جلد از جلد دفنانے کی تلقین کی اس لیے میت کو زیادہ دیر تک رکھنا بھی درست نہیں
میت کو جب قبرستان لے جاتے ہیں تو اس کے جنازہ کو ایک کپڑا سے ڈھانک دیتے ہیں، جس پر آیتہ الکرسی یا کوئی آیت لکھی ہوتی ہے۔ یہ بھی ایک غلطی ہے
قبرستان میں فرض صلاة ادا کرنا، حالانکہ اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صریح حدیث مروی ہے، میرے لئے ساری روئے زمین مسجد بنائی دی گئی ہے سوائے قبرستان اور حمام کے۔ ایک دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قبروں کی طرف رخ کرکے نماز نہ پڑھو۔ اس لئے کہ قبروں کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا، دعا کرنا، قرآن پڑھنا یہ سب شرک کے وسائل میں سے ہیں، البتہ جنازہ کی نماز قبرستان میں پڑھی جا سکتی ہے۔
ایک رسم جسے تیجھو کہا جاتا ہے ۔ اس میں مرگ کے بعد گھر کی چارپائیاں الٹا دی جاتی ہیں اور ایک بڑے کمرے میں زمین پر چادر بچھا دی جاتی ہے اور اہل خانہ تین دن زمین پہ سوتے ہیں۔ اس کا مقصد اپنے غم کو ظاہر کرنا ہوتا ہے۔ پھر تیسرے دن قریبی عزیز گھر آتے ہیں اور سارے اہل خانہ غسل کرتے ہیں اور عزیزوں کے دیے ہوئے کپڑے پہنتے ہیں ۔ یہ مرگ کے بعد بقیہ گھر والوں کی نئ زندگی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ مرنے والے کی قریبی خواتین کے سر پہ مہندی لگائی جاتی ہے ۔
ایک رسم مسلسل سات جمعرات سات طر ح کے کھانے بنوانا ہے۔ اس کے علاوہ مرحوم کے ایصال ثواب کے لیے قل کیے جاتے ہیں جن میں قرآن خوانی کی جاتی ہے اور گھٹلیوں پر قرآنی آیات پڑھی جاتی ہیں۔ پھر چالیس دن بعد بڑا ختم کیا جاتا ہے جس میں بڑے پیمانے پر نذر و نیاز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس دن مرحوم کے سب سے بڑے بیٹے کے سر پہ پگڑی رکھی جاتی ہے اور اسے وارث نامزد کیا جاتا ہے
بیوہ کے سر میں خاک ڈالنا ، اس کی چوڑیاں توڑنا اور سفید لباس پہنانا ہندوانہ رسم و رواج ہیں جو ہمارے معاشرے میں رائج ہیں
مسلمان ہونے کے لیے صرف خالی نبی سے محبت کا دعویٰ کرنا نہیں بلکہ اپنے ہر قول و فعل میں نبی کی اتباع کرنا از حد ضروری ہے۔ اللہ تعالی ہر مسلمان کو نبی کے احکامات پر درست طریقے سے عمل کرنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین
Written by
Eman Sajjad