Let’s learn about Hazrat Talha inn Ubaydillah.
آسمان پر سورج اپنی آب و تاب سے روشن تھا۔بازار میں عوام کا ہجوم اپنے معمول پر تھا۔اس بزم میں سب کچھ ویسا ہی تھا جیسا وہ چھوڑ کر گئے تھے۔۔۔مگر نہیں! سب کچھ ویسا نہیں تھا۔عرب کی زمین کی مہک آج کچھ اور تھی۔اس میں ایک معطر سا احساس تھا، فضا میں ایک پر سکون سے حدت تھی، جو گویا نئی زندگی کی نوید دیتی محسوس ہوتی تھی۔ کیا بدلا تھا وہاں؟! کچھ بے چین سا ہوتے ہوئے انہوں نے آس پاس کسی شناسا چہرہ کی کھوج میں نگاہ دوڑائی۔وہ ایک مشہور تاجر تھے، لوگ انہیں جانتے تھے، شہر میں ان کا ایک نام تھا۔ایک شناسا کو پاتے وہ اس سے پوچھے بنا نہیں رہ سکے، “کیا سرزمین عرب میں کچھ ہوا ہے؟”وہ اپنے جواب کے منتظر تھے۔”ہاں..!” ہوا میں ایک گہرا سانس خارج کرتے، جیسے انہوں نے خود کو کسی خبر کے لیے تیار کیا۔”محمد بن عبداللہ نے دعویٰ رسالت کیا ہے۔ اور ابو بکر نے ان کی پیروی کی ہے۔” انہوں نے حیرت سے عزیز کو دیکھا۔ ان کی نظروں میں بے یقینی واضع تھی۔سوچ سے بہت دور، انہوں نے ایسا کچھ نہیں سوچا تھا۔ یہ بہت شبہ کی بات تھی۔اب وہ کہہ رہے تھے۔”ابو بکر؟ ہم جانتے ہیں انہیں۔ وہ ایک ایماندار اور وضع دار تاجر ہیں۔ جنہیں عرب کی تاریخ کا خوب علم ہے۔” بے شمار سوالات اپنے کاندھے پر دھرے وہ ابوبکر کی طرف چل دیے۔آخر ابو بکر جیسا سمجھدار شخص محمد بن عبداللہ کی پیروی کیوں نکر کر رہا تھا؟ وہ اپنے سوال لیے ابوبکر کی پاس پہنچے۔وہ انہیں بتا رہے تھے۔۔”اے دوست! عرب سے دور ، شام کی سر زمین پر مجھے ایک کاہن ٹکرایا، جس نے کہا کہ شہر مکہ میں ‘احمد’ نام کا ایک روشن ستارہ طلوع ہوگا، جو کہ رب تعالی کا آخری نبی ہوگا۔ وہ عرب کو سرزمین سے بہار کی سر زمین میں بدلے گا”. مزید چند نشانیاں بتاتے ہوئے وہ سوال کر رہے تھے۔”کیا یہ وہی ‘احمد’ ہیں؟ جواب دو؟” ابوبکر بھیگی نگاہیں لیے، حیرت کا مجسمہ بنے انہیں دیکھ رہے تھے۔ اور پھر ابوبکر نے ان کی بات کی تائید کر دی تھی۔ابو بکر انہیں بتا رہے تھے، کہ محمد بن عبداللہ، اللہ کے رسول ہیں، اور کس قدر صادق و امین ہیں۔جس طرح ابو بکر ان کا ذکر کر رہے تھے، ان کا دل چاہا ابھی اپنی جان اس عظیم ہستی پر وار دیں۔وہ ان کی زیارت کے لیے بےتاب ہوئے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآل و سلم کے نام کی تسبیح پڑھتے ہوئے، ابوبکر انہیں لیے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآل وسلم کی خدمت میں پیش ہوئے، جہاں اللہ کے رسول نے انہیں اللہ کا کلام سنایا اور دین اسلام کی دعوت دی۔اور یوں طلحہ ابن عبیداللہ نے اسلام قبول کر لیا۔جی ہاں، یہ تھے صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآل و سلم۔۔۔طلحہ ابن عبیداللہ (656-594) ، جن ک تعلق ابو بکر رضہ کے قبیلے سے تھا اور جو مکہ میں ایک حیثیت رکھتے تھے، جنہوں نے اسلام کے اوائل آیام میں اسلام قبول کیا اور اپنی پوری زندگی اس کے نام کر دی۔یہی وہ طلحہ ابن عبیداللہ ہیں جنہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآل وسلم نے جنت میں اپنا ہمسایہ ہونے کی بشارت دی۔جب طلحہ ابن عبیداللہ رضہ کے قبول اسلام کی خبر مکہ میں پھیلی تو آپ کے اہل خانہ غم و غصہ سے پر ہو گئے۔ تاریخ بتاتی ہے، کہ آپکے اسلام قبول کرنے کی خبر نے آپ کی والدہ کو بہت صدمہ پہنچایا، اور ایک ماں ہونے کے باوجود اس عورت نے آپ کے ہاتھ پیٹھ پر باندھ کر آپ کو بھرے بازار میں سنگسار کیا۔ اتنا ہی نہیں ، آپ کے اہل خانہ کے ہر فرد نے آپ کو اذیت دی، جس کی قوت میں جو تھا، وہ کیا گیا۔۔۔مگر آپ رضہ کے دل میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآل وسلم کی محبت پیوست ہو چکی تھی، ہدایت کی مہر لگ چکی تھی لہٰذا آپ رضہ اپنے دین پر ثابت قدم رہے۔وقت گزرتا رہا اور آپ نے بے شمار تکالیف برداشت کرنے کے باوجود دین کی راہ نہیں چھوڑی۔ آپ رضہ کے اخلاص اور حسن سلوک کو دیکھتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآل وسلم آپ رضہ کو “السخی” اور “الفیاض” کہتے تھے۔ دین میں آپ رضہ کی سخاوت اور فیاضی مثالی تھی۔آپ ایک مالدار تاجر تھے اور دین اسلام میں آنے جے بعد آپ رضہ نے اپنا مال اپنے مسلمان بھائیوں پر لٹانے سے بالکل دریغ نہیں کیا۔جب ایک مرتبہ آپ رضہ کو تجارت میں بڑا منافع ہوا، تو آپ تمام رات بے چینی میں ٹہلتے رہے۔آپ رضہ کی زوجہ، ام کلثوم جو کہ ابوبکر رضہ کی دختر تھیں، آپ سے بے چینی کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا؛ ‘ کہ کوئی شخص اس قدر مال و دولت کے ہوتے ہوئے اللہ کو کیسے پا سکتا ہے۔۔اور پر سکون کیسے رہ سکتا ہے؟ ‘ دن چڑھتے آپ نے اپنا مال ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیا۔یہی نہیں ، بلکہ عرب میں جس کسی کو امداد درکار ہوتی، وہ طلحہ ابن عبیداللہ کے دروازے پر جاتا، آپ رضہ خود بھی ہر ضرورت مند کا بے حد خیال رکھتے تھے۔دوسروں کو آسودہ کر کے آپ سادگی کو ترجیح دیتے تھے جو کہ یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآل وسلم کی درس گاہ سے سیکھا گیا تھا۔ سخاوت کے ساتھ ساتھ، آپ رضہ کی شجاعت بھی قابل تعریف تھی۔ غزوہِ احد میں آپ رضہ نے مثالی کردار ادا کیا ،جس کہ بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآل وسلم نے آپ رضہ کو “زندہ شہید” کے لقب سے نوازا۔ غزوہِ احد کے ساتھ ساتھ آپ نے دیگر غزوات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔آپ رضہ سپہ سالار کی حیثیت سے ہر بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آل وسلم پر جان نچھاور کرنے کو تیار رکھتے تھے۔ تاریخ کہتی ہے، آپ رضہ ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آل وسلم سے شہادت کی خواہش کا اظہار کرتے، مگر حیات رسول صلی اللہ علیہ و آل وسلم میں ایسا نہ ہو سکا۔البتہ ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آل وسلم نے آپ کو جنت کی بشارت ضرور دے دی۔ایسے با اخلاق ، فیاض اور شجاع صحابی سے ایک مسلمان کو زندگی کا وہ درس ملتا ہے جو اس ک کامیابی کا ضامن ہے۔آپ رضہ نے ہمیشہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آل وسلم کو اول رکھا ، اور اپنی زندگی ان سے عشق و محبت میں گزاری۔۔ذرا سوچیں، ایک ایسا شخص ، جس کے پاس دنیا کی ہر آسائش ہے، مال و دولت ہے، پیار کرنے والا خاندان ہے، رتبہ ہے، مقام ہے، اسے اپنی پر آسائش زندگی چھوڑ کر، اپنا خاندان چھوڑ کر یہاں تک کہ اپنی ماں کو خیر باد کہہ دیا۔۔۔اپنا مکمل طریق زندگی بدلنے کی کیا ضرورت تھی؟! اور کیا یہ سب بدلنا اتنا آسان تھا؟! کیا ان کا نفس انہیں بہکاتا نہیں تھا؟ کیا ان کا دل نہیں چاہتا تھا کہ وہی عیش و عشرت لوٹ آئے؟سب تھا مگر مگر ہمارے اس پیارے صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ اور اس کے رسول کے لیے سب چھوڑا۔۔دین کے لیے سب کر لیا۔اپنا آپ بدل ڈالا۔ایک نیک و پرہیزگار انسان کی حیثیت سے زندگی گزاری اور اتنا ہی نہیں۔۔۔۔نبی اللہ صلی اللہ علیہ و آل و سلم سے جنت کی ضمانت بھی لے لی۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آل وسلم کی رخلت کے بعد آپ ہمیشہ خلفہ راشدین کے قریب رہے اور دین اسلام کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ آپ رضہ نے 656 میں جنگ جمل میں جام شہادت نوش فرمایا۔آپ کی عمر 64 برس تھی۔آپ کا مزار عراق کے شہر بصرہ میں واقع ہے۔ __________________________________
Masha Allah,such a beautiful description ❤️