Amin ul Ummat

Let’s learn about Hazrat Abu Ubaidah Bin Al Jarrah (R.A)

حضرت ابو عبیدہ عامر بن عبداللہ ابن الجراح رضی اللہ تعالی عنہ اس دنیا میں کوئی اونچے مرتبے والا اگر ہماری تعریف کر دے تو ہم پھولے نہیں سماتے اور سب سے ذکر کرتے ہیں تو سوچئے اس انسان کا رتبہ کیا ہو گا جنہیں خود معلم انسانیت ، صادق و امین اور رحمة للعالمين نے “امین امت” کا خطاب دیا۔ ان کی خوشی کا کیا عالم ہوگا جب انہیں اس بات کی خبر ملی ہوگی۔ وہ انسان کون تھے؟ وہ خوش نصیب انسان حضرت ابو عبیدہ عامر بن عبداللہ ابن الجراح رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی حیات مبارکہ کا دورانیہ 583 سے 639 تک تھا۔ آپ قریش کے قبیلے بنو حارث سے تعلق رکھتے تھے- آپ رضی اللہ تعالی عنہ نبی اکرم ﷺ کو نبوت عطا ہونے سے پہلے بھی نہایت شریف النفس انسان تھے ۔ اس بات کی گواہی دیتے ہوئے حضرت عمرو بن العاص نے بیان کیا کہ قریش مکہ میں نبوت سے پہلے تین لوگ ایسے تھے جو کبھی جھوٹ نہیں بولتے تھے، دھوکہ نہیں دیتے تھے اور صادق تھے ۔ ان میں سے ایک ابوبکر تھے اور باقی دو ابو عبیدہ بن عبداللہ اور عثمان بن عرفان(رضی اللہ تعالی عنہما) تھے۔ آپ بہت عمدہ کردار کے مالک اور خوش شکل بھی بلا کے تھے ۔ آپ حضرت ابوبکر سے اگلے روز ہی ایمان لے آئے اور ان کے قبول اسلام میں میں ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد انہیں بھی دیگر صحابہ کرام کی طرح بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر وہ ثابت قدم رہے۔ ہجرت مدینہ کے بعد انہوں نے غزوات میں شرکت کی اور کمانڈر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیے ۔ ان کے اسلام پر عمل کرنے میں ان کا خاندان رکاوٹ بنا۔ اس بات کا اندازہ اس طرح سے ہو سکتا ہے کہ غزہ بدر میں ان کے مد مقابل ان کے والد آ گئے۔ انہوں نے انہیں نظر انداز کرنا چاہا مگر والد نے انہیں گھیر لیا اس پر حضرت ابو عبیدہ نے اسلام کی سربلندی کے لیے اپنے والد کو قتل کر دیا۔ یہ ایک بہت عظیم قربانی تھی جو انہوں نے اسلام کی خاطر دی۔ غزوہ احد میں بھی انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت نہایت بہادری سے کی اور اس دوران ان کے کچھ دانت شہید ہوگئے۔ غزوہ خندق کے موقع پر بنو قریظہ اور بنو نضیر سے مقابلے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دستہ تشکیل دیا اور اس کا کمانڈر ابو عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ کو بنایا۔ آپ کو امین الامت کا خطاب کیسے ملا؟ ہوا یوں کہ نجر ان سے ایک وفد آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ اسلام کی صحیح تعلیم دینے والا ایک شخص ہمارے ساتھ بھیج دیں۔ آپ ﷺ نے اس موقع پر آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو امین الامت کا خطاب دیتے ہوئے فرمایا “ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے ہے، میری امت کے امین ابو عبیدہ بن جراح ہیں۔”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم علم کی وفات کے بعد بعد جب خلیفہ چننے کا موقع آیا تو حضرت ابوبکر نے حضرت عمر اور حضرت ابو عبیدہ کو مقرر کیا لیکن بعد میں مسلمانوں نے باہمی اتفاق سے حضرت ابوبکر کو خلیفہ بنا دیا۔ اس دوران جب فتنوں نے جنم لیا تو حضرت ابو عبیدہ ان کے مقابلے کے لیے بھی پیش پیش رہے۔ ان میں سے ایک مہم شام میں بازنطینی سلطنت کے خلاف تھی ، اس مہم میں حضرت خالد بن ولید کمانڈر تھے ان کی قیادت میں بہت سی فتوحات ہوئیں اور فتوحات بھی ایسی معجزاتی آتی کہ دشمن حیران رہ گئے کہ انسانی قوت کے حصار میں ایسا کیسے ممکن ہے۔ اسی دوران حضرت ابو عبیدہ کو حضرت عمر کا ایک خط موصول ہوا جس میں انہوں نے حضرت ابوبکر کی وفات کا ذکر کیا اور بتایا کہ نئے خلیفہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔ اس خط میں انھوں نے حضرت خالد کی جگہ حضرت ابو عبیدہ کو کو کمانڈر مقرر کرنے کا حکم دیا۔ حضرت ابو عبیدہ نے نے وہ خط چھپا لیا اور مہم مکمل ہونے پر حضرت خالد کو دکھایا۔ اس سے ان کی دور اندیشی اور جنگی پالیسی کی مثال ملتی ہے۔ شام میں چیچک کی وبا پھیلی تو حضرت ابو عبیدہ بھی اس کی لپیٹ میں آگئے اور اسی کے باعث اس اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو سادگی اور عاجزی و انکساری تھی۔ اس کی ایک مثال یوں ملتی ہے کہ شام کی فتوحات کے بعد حضرت عمر ان سے ملنے اور چابیاں لینے یروشلم آئے تو اس وقت معلوم ہوا کہ وہ ہرکولیس کے محل کے ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتے تھے اور روٹی کے ٹکڑوں اور پانی پر گزارا کرتے تھے۔ اللہ ہمیں بھی حضرت ابو عبیدہ جیسے ایمان کی قوت، عجز کی طاقت اور اسلام کے لیے قربانی کے جذبے سے مالا مال فرمائیں۔ ( آمین یا ربنا کریم)

Written by Hamsa Fatima.

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Aslamualykum!
Scroll to Top