دعا آپ اور آپ کے رب کے درمیان بہت خوبصورت گفتگو ہے۔اور جس سے دعا مانگی جا رہی ہے دعا کے آغاز میں اس کی تعریف دعا کا ایک اہم جز ہے ۔قرآن میں انبیاءکرام علیہم السلام کی دعاؤں کا ذکر کر کے ہمارا کریم رب خود ہمیں بتاتا ہے کہ وہ کیسے الفاظ میں دعا مانگا کرتے تھے۔اس کی قدرتوں کا اعتراف۔اس کی لاثانی مدد کی طلب۔حالات و اسباب نہ دکھائی دینے کے باوجود اس کی توجہ اور رحمتوں پر پورا یقین۔یہی تو وہ پکار ہے جسے دعا کہتے ہیں۔کیونکہ وہ اپنے بندےسے یہی اقرارتوسنناچاہتاہےکہ آپ اس کی ذات کی بلندی کا اعتراف کرتے ہوئے اسے بتائیں کہ آپ کو اس کی کتنی ضرورت ہےکہ اس کے سوا آپ کا کوئی نہیں۔۔
قران میں اپنے بندوں کی زبان سے کی جانے والی تعریف بیان کر کے ہمارا رب دراصل خود اپنا تعارف کروا رہا ہے کہ میں کون ہوں جس سے تم دعا کر رہے ہو۔جیسے فرمایا:
“بےشک میرا رب تو دعاؤں کا سننے والا ہے”(سورہ ابراھیم:39)”
تو وہ بتا رہا ہے کہ میں دعا کا سننے والا ہوں۔اس لیے مجھ سے اپنی دعا مانگو ،میں سنوں گا۔ جیسے حضرت یعقوب علیہ السلام نے جب کہا!
“میں اپنی پریشانیوں اور غم کی فریاد تو بس اللّٰہ (آپ)ہی سے کرتا ہوں “”(سورہ یوسف؛86)
حضرت یعقوب علیہ السلام سے یہ الفاظ کہلوا کر کتنے پیارے انداز میں وہ کہہ رہا ہے کہ بس صرف مجھ سے ہی فریاد کرنا،کسی اور سے امید نہ لگانا۔کیا اللّٰہ نے حضرت یعقوب علیہ السلام کی دعا نہیں سنی تھی؟ضرور سنی تھی۔وہ تمہاری بھی سنے گا۔
فرمایا:”میں کبھی بھی آپ سے دعا مانگ کے محروم نہیں رہا “۔ (سورہ المریم؛4)
حضرت زکریا علیہ السلام سے یہ الفاظ کہلوا کر وہ بتا رہا ہے کہ مجھ سے دعا مانگو گے تو کبھی مایوس اور محروم نہیں رہو گے۔تم بے چین ہو کہ پتہ نہیں میں دعا کروں تو وہ دعا قبول ہوگی بھی کہ نہیں ،تو سنو پھروہ فرماتا ہے:
“بھلا وہ کون ہے کہ جب کوئی بے قرار اسے پکارتا ہے تو وہ اس کی دعا قبول کرتا ہے ، اور تکلیف دور کردیتا ہے”(سورہ النمل:62)
کہتا ہے کہ ہے کوئی میرا تمہارے سوا؟جو دعا قبول کرے۔مجھے نہیں سناؤ گے تو اور کون ہے جو سنے اور قبول کرے؟۔بس جب کوئی نہیں ہے تو سنو قرآن کہتا ہے کہ؛
“اور تمہارے پروردگار نے کہا ہے کہ : مجھے پکارو ، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا “(سورہ المومن؛60)
وہ تم سے مخاطب ہے،کیونکہ وہ “تمہارا” ہی تو رب ہے۔ کیا جو چیز تم مانگ رہے ہو وہ تمہیں ناممکن لگ رہی ہے؟کیونکہ راستہ نظر نہیں آرہا ؟تمہیں سمجھ نہیں آرہا کہ کیسے ہوگا؟جب اس نے خود کہ دیا ہے کہ مجھے پکارو ،تو حالات اور اسباب کی طرف کیوں دیکھتے ہو۔ یاد نہیں جب حضرت زکریا علیہ السلام نے اپنی خواہش کے بارے میں سوچا تھا کہ ظاہری اسباب نہ ہونے کی وجہ سے یہ کیسے ہوگا تو قرآن کہتا ہے کہ؛
“تمہارے رب نے فرمایا ہے کہ یہ کرنا میرے لیے آسان ہے” (سورہ المریم:9)
جب وہ خود کہہ رہا ہے کہ اس کی قدرت میں ہر چیز ہے تو بتاؤ کیا اس نے حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا کی قبولیت کے لیے حالات نہیں بنائے تھے؟تمہارے رب کو حالات کی ضرورت نہیں ہے ،وہ تو خود حالات بنانے والا ہے۔وہ تو وہ ہے جسے قرآن کہتا ہے کہ:
“وہ جب کبھی کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے اسے اتنا فرما دینا ( کافی ہے ) کہ” ہو جا” وہ اسی وقت ہو جاتی ہے “۔(سورہ یس:82)
تمہیں بس دعا مانگنی ہے۔حالات وہ بنائے گا۔حالات اس کے محتاج ہیں وہ حالات کا محتاج تھوڑی ہے۔یاد کرو جب حضرت ابرہیم علیہ السلام نے کہا ؛
“بےشک میرا رب تو دعاؤں کا سننے والا ہے”(سورہ ابراھیم:39)
تو کیا اس نے دعا قبول نہیں کی تھی؟ یاد کرو جب حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا تھا؛
“بیشک میرا رب (تو میرے) قریب اور دعاؤں کا قبول کرنے والا ہے”(سورہ ھود:61)
محبت کی شدت دیکھو کہ قرآن میں ان الفاظ کا ذکر کر کے وہ تمہیں بتا رہا ہے کہ تم جس سے مانگ رہے ہو وہ کتنی بلند ہستی ہے ۔جیسے تم خود کو حالات کے سامنے بے بس محسوس کر رہے ہو۔یاد کرو کہ حضرت نوح علیہ السلام بھی تو اکیلے تھے،خود کو بے بس محسوس کر رہے تھےاور دعا کی کہ؛
“میں بے بس ہوں (اللّٰہ) تو میری مدد کر ۔”(سورہ القمر:10)
تو حضرت نوح علیہ السلام کی دعا قبول کر کے تمہارے رب نے خود کا تعارف کروا کر فرمایا؛
“تو بس ( دیکھ لو ) ہم دعا کے کتنے اچھے قبول کرنے والے ہیں”(سورہ الصافات:75)
تمہیں لگ رہا ہوگا کہ میں تو تنہا ہوں،تو پھر قرآن کیا کہتاہے کہ ؛
“اور زکریا کو دیکھو ! جب انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا تھا کہ : یا رب ! مجھے اکیلا نہ چھوڑیے ، اور آپ سب سے بہتر وارث ہیں ۔”(سورہ الانبیاء:89)
تو جانتے ہو کیا جواب ملا
,”پس ہم نے ان کی دعا قبول کر لی”(سورہ الانبیاء:90)
تم تکلیف میں ہو،کیا حضرت ایوب علیہ السلام تکلیف میں نہیں تھے؟قرآن میں اللّٰہ نے ان کی فریاد ان الفاظ میں لکھی ہے:
“اور ایوب کو دیکھو ! جب انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ :
مجھے یہ تکلیف لگ گئی ہے ، اور تو سارے رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے” (سورہ الانبیاء:83)
کیا تمہارے رب نے ان کی پکار نہیں سنی تھی؟ بلکہ اس نےتو فرمایا؛
“پس ہم نے ان کی دعا قبول کر لی”(سورہ الانبیاء:84)
تم بے سروسامان ہو،تمہارے پاس کچھہ نہیں ہے تو یاد کرو اللّٰہ نے موسیٰ علیہ السلام کی بھی تو دعا سنی ،جب ان کے پاس کچھ نہ تھا؛
“اے پروردگار! تو جو کچھ بھلائی میری طرف اتارے میں اس کا محتاج ہوں” (سورہ القصص؛24)
تمہیں لگتا ہوگا کہ میں تو بہت گناہگار ہوں مجھ سے تو نافرمانی ہو جاتی ہے،بھلا میں اللّٰہ کا پسندیدہ تو ہوں نہیں۔تو پھر میری دعا اللّٰہ قبول کرے گا بھی کہ نہیں تو پھر سنو اگر تم اپنی غلطی پر نادم ہو، اور رجوع کرنا چاہتے ہو تو اگر تم بھی کہہ دو گے کہ؛
“( یا اللہ ! )تیرے سوا کوئی معبود نہیں،تو ہرعیب سے پاک ہے۔ بیشک میں قصور وار ہوں “۔(سورہ الانبیاء:87)
جیسے حضرت یونس علیہ السلام نے کہا تھا تو اللّٰہ نے ان کی دعا بھی تو سن لی۔وہ پھر تمہارے لیے بھی اس ندامت کے بدلے دعا کی قبولیت عطا کر کے فرمائے گا،اور تمہیں بھی وہی جواب ملے گا جو انھیں ملا؛”پس ہم نے ان کی دعا قبول کر لی”(سورہ الانبیاء:88)وہ تو سب کی سنتا ہے ،پس اگر تمہیں تمہارے گناہ خوف دلا رہے ہیں تو تمہارا رب تو ہے ہی توبہ قبول کرنے والا ۔اسے بتاؤ کہ میں شرمندہ ہوں ،اسے بتاؤ کہ اس کے پاس تو بہت سے نیک سے نیک تر لوگ ہیں،لیکن اے میرے اللّٰہ میرے پاس تو بس آپ ہی ہو۔ قرآن نے مجھے آپ کے بارے میں بتایا کہ ؛ “بیشک تو دعا کا سننے والا ہے ۔”(سورہ آل عمران ؛38)تو اس کے سامنے بچوں کی طرح بات کرو،لپکو اس کی طرف اور کہو؛
یاَ سَرِیْعَ الرَّضَا اِغْفِرِ لمَِنْ لاٰ یَمْلِکُ اِلا الدُّعٰاء”اے بہت جلد راضی ہو جانے والے (اللّٰہ) اپنے اس بندے کو بخش دے جس کے پاس سوا دعا کے کچھ بھی نہیں”
وہ جانتا ہے کہ تم اپنی دعاؤں کی قبولیت کے لیے اس سے آس لگائے بیٹھے ہو،تمہارا رب بار بار دعا کے لیے اٹھتے ہوئے ہاتھ دیکھرہا،یاد کرو جب قرآن میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی کیفیت بیان کر رہا ہے ان کا اور ہمارا رب کہ؛
“ہم تمہارے چہرے کو بار بار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں ۔ چنانچہ ہم تمہارا رخ ضرور اس قبلے کی طرف پھیر دیں گے جو تمہیں پسند ہے” ۔(سورہ البقرہ:144)
دیکھا؟تمارا رب بھی دیکھ رہا ہے تمہارے اٹھتے ہوئے ہاتھ ،اس کی آس میں لگا ہوا آسمان کو تمہارا تکتا ہوا چہرا ۔ تمہیں تو بس یقین رکھنا ہے کہ وہ دے گا، وہ حالات بنائے گا،جس یقین سے حضرت ابرہیم علیہ السلام نے اپنے رب کو پکارا،تو کیا وہ محروم رہے؟تو بس تم بھی قبولیت کی امید سے وہی کہہ دو کہ؛
“مجھے یقین ہے کہ میں اپنے پروردگار سے دعا مانگ کر محروم نہ رہوں گا ۔”(سورہ المریم؛48)
تو خوش ہو جاؤ کہ تمہارے کریم رب نے ،تمہارے لیے تمہاری پکار کا جواب دینے کا فرمان بھیجا ہے ؛”اور ( اے پیغمبر ! ) جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں پوچھیں تو ( آپ ان سے کہہ دیجیے کہ ) میں اتنا قریب ہوں کہ میں دعا کرنے والے کو جواب دیتا ہوں جب بھی وہ مجھ سےدعا کرتا ہے” (سورہ البقرہ:186)قرآن سے دی گئی ان تمام تسلیوں کے بعد تمہارا رب پوچھتا ہے تم سے کہ؛
“کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے؟”(سورہ الزمر:36)
تم اب بھی پریشان ہو کہ کیسے ہوگا؟حالات کیسے بنیں گے ؟میری دعا کی قبولیت کے وسائل کیسے بنیں گے ؟اسے تو بس تم سے توکل چاہیے ۔کہ بھروسہ رکھو اپنے رب پر ۔بس توکل رکھنا ہے اس پر کیوں کہ وہ کہتا ہے؛
Ma sha Allah… very very Beautiful. JAZAKALLAH KHYR. Thumbs up for Hira may Allah bless you !
Superb Masha Allah ✨
Well explained… May Allah SWT accept your all Duas Hira
Stay blessed ✨