جس نے کسی قوم کے ساتھ مشاہبت اختیار کی ،اس کا تعلق اسی قوم سے سمجھا جائے گا”(سنن ابی داؤد)

کس قدر واضح الفاظ میں اللّٰہ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہمیں ہر اس چیز سے آگاہ اور متنبہ کر دیا ہے جو کہ ہمارے ایمان کو کسی بھی شکل میں نقصان پہنچا سکتی ہے ۔جو کوئی مسلمان کسی ایسے عمل کا ارتکاب کرے گا یا اس میں شامل ہوگا جو کسی اور قوم کا اصل و رسوخ رہا ہو تو وہ اسی قوم کا فرد سمجھا جائے گا۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ اگر کوئی کسی کافر کے کیے گئے عمل کی پیروی کرتا ہے تو وہ کافر سمجا جائے گا۔ اتنی نازک صورتحال ہے اور ہم ہیں ہیں کہ آج کل کے فتنہ پرور دور میں اپنی شناخت کو فراموش کرتے ہوئے ،اپنے ایمان کو خود اپنے ہاتھوں سے روند کر محض چند لمحوں کے لیے محظوظ ہونے کی غرض سے ہر وہ تہوار ،ہر وہ فنکشن ،ہر وہ رسم ،ہر وہ طریقہ اپنائے ہوئے ہیں جو کہ غیر مسلم قوموں کا طرز رہا ہے۔اپنے ایمان ،اسلام ،تہذیب ،ثقافت غرض کسی بھی چیز کی پرواہ کئے بغیر ہمیں بس اپنی خوشی ،اپنا نفس، اپنی ذات اور اپنے دل کی تسکین اور اپنے آپ کو ماڈرن دکھانے کی پڑی ہے۔

کتنی ہی ایسی فضولیات کو ہم نے روزمرہ کا حصہ بنا لیا جو کہ غیر اسلامی ہیں،کتنی ہی ایسی رسومات کو ہم نے شادی جیسی مقدس سنت کا حصہ بنا لیا ہے جن کی بنیاد ہندوانہ ہے۔

کالج اور یونیورسٹیوں میں منعقد کئے جانے والے مخلوط فنکشن ،کنسرٹ ،کلر پارٹی کے نام پر منائے جانے والی ہولی، انتہا کی بے پردگی، محرم نا محرم کی تمیز تو جیسے اب کوئی معنی نہیں رکھتی۔

ہمیں صرف تفریح سے غرض ہے۔ بس تفریح ہو جو نفس کی تسکین کے لیے ہو اس کے لیے اخلاقی اقدار پامال ہوں ، دین کی حدود پامال ہوں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایسا ہی اک تہوار ہالووین ہے اس کا پس منظر پتہ نہیں ہے بس منانا ہے ، اپنے تہوار ہم سے منائے نہیں جاتے تب ہمیں میچیورٹی یاد آجاتی ہے لیکن مغرب کی تقلید ضرور کریں گے چاہے اس کے لیے اپنی پہچان ہی کیوں نہ کھو دیں۔ مغربی تہواروں کی اندھا دھند تقلید میں ہم کیوں بھولتے جا رہے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں ، ہم اللّٰہ اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے ہیں ۔کیا صرف مسلمان نام رکھنا ہمارے لیے بخشش کا سامان کر دے گا جب کہ جگہ جگہ دنیا کے مراحل میں ہم نے غیر اسلامی چیزوں کو آخرت پر فوقیت دی ہو۔۔۔؟ قرآن بار بار ہمیں آگاہ کر رہا ہے نتیجے سے لیکن ہم بس اپنے نفس کے غلام ہیں،جو وہ کہے گا ہم وہی کریں گے۔ کیا یہ آیت کافی نہیں کہ؛

” کچھ لوگ وہ ہیں جو اللّٰہ سے غافل کر دینے والی باتوں (یعنی مثلاً موسیقی کے آلات وغیرہ) کے خریدار بنتے ہیں تاکہ ان کے ذریعے لوگوں کو بے سمجھے بوجھے، اللّٰہ کے راستے سے بھٹکائیں،اور اس کا مزاق اڑائیں۔ ان لوگوں کو وہ عذاب ہوگا جو ذلیل کر کے رکھ دے گا”

(سورہ القمان:6)

گانا بجانا ،سننا ،گانا،غرض میوزک کی چاہے کوئی بھی شکل ہو ،وہ تو اب گناہ سمجھا ہی نہیں جاتا، بہت ہی کم چیزیں ایسی ہونگی جن میں میوزک نہ شامل ہو،یہاں تک کہ اب تو نعتیہ کلام میں بھی موسیقی اپنا مقام بنا رہی ہے۔جب کوئی گناہ ،گناہ سمجھا ہی نہ جانے لگے تو اس سے بچاؤ اور اس پر توبہ کیسے ممکن ہے۔۔۔!؟

ایک یونیورسٹی جب کو کوئی کنسرٹ منعقد کرواتی ہے ،اس کو منعقد کروانے والا ہر شخص ،جس میں اس نے چاہے کسی بھی طریقے سے مدد کی ہو،اس کسنرٹ میں آنے والا ہر شخص ،اس کی ٹکٹ خریدنے والا ہر شخص، گناہگار ہو گا۔لیکن ہماری قوم کو کہاں پرواہ ہے..!

” میری امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے ،جو گانا بجانا کو حلال کر لیں گے”

(صحیح بخاری)

۔بات صرف کنسرٹ کی حد تک نہیں رہی اب،معاملہ بہت آگے نکل چکا ہے، میوزک نائٹ ،قوالی نائٹ کے نام پر ہم نے یہ سب حلال کر لیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہماری جیسی قوم کے لیے کی ہے۔۔۔!

حرام کام ہمیں اب حرام نہیں لگتے۔ اس لیے ان پر توبہ کرنا بھی اہم نہیں سمجھتے ہم۔ کیوں؟ کیوں کہ موسیقی نے دل میں نفاق پیدا کر دیا ہے ۔

” گانا دل میں نفاق کو ایسے اگاتا ہے جیسے پانی کھیتی کو اگاتا ہے”

(مشکٰوت:4810)

۔اور ایک ہم ہیں کہ جن کو کوئی غرض نہیں کسی چیز سے ،اپنی مستی میں مست ہم ایسے گانوں اور قوالیوں میں مدہوش ہونے کو تیار ہیں ۔ اللّٰہ کی قسم یہ ہمارا دین نہیں ہے۔ کیوں دو چار لمحوں کے لیے ایسے غیر اسلامی فنکشن پر جانے کے لیے ہم اپنا ایمان اپنی آخرت بیچنے کو تیار ہیں ۔شادی بیاہ میں بے پردگی، نا محرم لوگوں کے سامنے خوب بن سنور کر جائیں گے ہم ،ہر قسم کی رسم جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، وہ کی جائیں گی، دلہن دلہا نکاح سے پہلے مل کر ڈانس کریں گے، شادی میں شرکت کرنے والی خواتین سے زیادہ وہاں ہر رکھی کرسیاں ڈھکی ہوتی ہیں،نا محرم فوٹو گرافر دلہن کی تصویریں بنا رہے ہوں گے اور شوہر کی غیرت سوئی رہے گی۔اسلامی تعلیمات کا مزاق اڑا کر رخصتی کے وقت دلہن کے سر پر قرآن پاک رکھا جائے گا۔ کیا قرآن صرف اسی کاموں کے لیے رہ گیا ہے۔اسی قرآن کی تکذیب کی ہے آپ نے جس کے سائے میں بیٹی کو رخصت کر رہے۔ اور ویلنٹائن ڈے کے نام پر ہونے والی فحاشی تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔

کہاں جا رہے ہیں ہم…؟کیا اللّٰہ کی خاطر ہم ان سب فضولیات کو چھوڑ نہیں سکتے؟۔ کیا اللّٰہ کے غضب سے بے باک ہیں ہم؟ کب یاد آئے گا ہمیں کہ غیر مسلم قوموں اور مغریب کی تقلید کرتے کرتے ہم اپنا ایمان گنوا بیٹھے ہیں،۔؟ چند لمحوں کی لذت کے عوض ابدی عذاب کو مول لے لیا ہے۔ہمارے معاشرے میں ہونے والے یہ ساری غیر اسلامی اور اخلاقی پستی کے شکار تہوار ہماری جڑیں کاٹ چکے ہیں۔ اور اگر اس کو نہیں روکا ،اور اپنی زندگی سے ان کو نہ نکالا تو بروزِ حشر ہمارا شمار انھی لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللّٰہ کی ناراضگی ثابت ہو چکی ہے ۔

” تقویٰ تو یہ ہے کہ تمہارا پروردگار تمہیں وہاں نہ پائے جہاں اس نے منع کیا ہے”

ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے اردگرد ،اپنے کالجوں ،اپنی یورنیورسٹیوں میں ہونے والے غیر اسلامی فنکشنز کا حصہ نہ بنیں۔آخر آپ کسی بھی ایسے عمل کا حصہ کیسے بن سکتے ہیں ک جس میں اللّٰہ کی نا فرمانی ہو رہی ہو ؟،نہ ہی انھیں منعقد کروانے میں کوئی مدد کریں نہ ہی ان میں شامل ہوں ،اپنے خاندان میں ہونے والی شادیوں میں کی جانے والی غیر اسلامی رسومات کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کریں۔۔۔ورنہ ہم خود کے ساتھ ساتھ دوسروں پر بھی ظلم کر بیٹھے گے۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہی اس کا حل ہے۔لوگوں کو تباہی میں جانے سے روکنا ہوگا ورنہ ہمارا ایمان اور ہمارا معاشرہ دونوں ہم اپنے ہاتھوں سے روند چکے ہوں گے ۔

Written by : Hira Zahoor

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

0 thoughts on “جس نے کسی قوم کے ساتھ مشاہبت اختیار کی ،اس کا تعلق اسی قوم سے سمجھا جائے گا”(سنن ابی داؤد)”

Aslamualykum!
Scroll to Top