Let’s learn about Hazrat Usman (R.A)
ہمارے تیسرے ہیرو ہیں حضرت عثمان بن عفان. آپ کا اسم گرامی عثمان، والد کا نام عفان، کنیت ابو عبداللہ اور لقب ذوالنورین تھا۔ آپ کا تعلق بنو امیہ سے تھا جس کا شمار قریش کے چند طاقتور قبائل میں ہوتا تھا۔ آپ ان چند لوگوں میں سے تھے جو زمانہ جاہلیت میں بھی تعلیم یافتہ تھے۔ آپ حضرت عمر کی شہادت کے بعد خلیفہ سوئم منتخب ہوئے۔آپ کی حیاتِ مبارکہ کے چند روشن پہلو درج ذیل ہیں۔۱
. ذوالنورین
آپ وہ واحد شخص ہیں جن کے نکاح میں کسی نبی کی دو صاحبزادیاں آئیں۔ نبی کریم صلی الله عليه وسلم کی دختر حضرت رقیہ کا نکاح حضرت عثمان کے ساتھ ہوا ۔ حضرت رقیہ کی عمر اس وقت بارہ سال تھی۔ غزوہ بدر کے موقع پر وہ شدید علیل ہوگئیں۔ حضرت عثمان نے نبی کریم صلی الله عليه وسلم سے غزوہ میں شمولیت کی اجازت طلب کی تو آپ صلی الله عليه وسلم نے آپ کو تیماداری کے لیے مدینہ میں ہی رکنے کا حکم دیا۔ حضرت رقیہ کا وصال ہوا اور تبھی غزوہ میں کامیابی کی خبر آئی۔ کچھ عرصے بعد نبی کریم صلی الله عليه وسلم نے اپنی دوسری صاحبزادی حضرت ام کلثومؓ بھی آپ کے نکاح میں دیں۔ اس لیے آپ کو “دو نوروں والا” کہا جاتا ہے
۔۲۔قبولِ اسلام کے بعد صعوبتیں :
اسلام قبول کرنے کی وجہ سے آپ کے چچا حکم بن العاص نے آپ کو رسی سے باندھ دیا اور کہا کہ تم نے آباؤ اجداد کے دین کو چھوڑ کر نئی راہ چنی ہے۔ جب تک اسے نہیں چھوڑو گے میں تمہیں نہیں کھولوں گا۔ اس کے علاوہ آپ کو رسیوں میں جکڑ کر مارا جاتا اور آگ جلا کر دھواں دیا جاتا اس کے باوجود آپ حق کی راہ پر ڈٹے رہے اور غیر اسلامی طاقتوں کو آپ کے سامنے ہار ماننا پڑی
۔۳-پہلے مہاجر :
مکہ مکرمہ میں جب مسلمانوں پر حیات تنگ کر دی گئی تو آپ پہلے صحابی تھے جنہوں نے اپنے اہل و عیال کے ہمراہ حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ آپ حضرت لوط کے بعد پہلے مہاجر تھے۔۴۔سخاوت و غنا کی مثال:
آ پ مدینہ کے چند متمول اشخاص میں سے تھے۔ جتنا آپ کے پاس مال و زر تھا اس سے کئی گنا زیادہ آپ فیاض تھے۔ سخاوت میں آپ کا کوئی ثانی نہ تھا۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں
مدینہ میں میٹھے پانی کا ایک ہی کنواں تھا جس کا مالک ایک یہودی تھا۔ وہ پیسوں کے عوض پانی بیچتا تھا۔ ہجرتِ مدینہ کے بعد مسلمان کسمپرسی کا شکار تھے۔ اس لیے پانی خریدنے کی استطاعت نہ رکھتے تھے ۔ حضرت عثمان نے وہ کنواں یہودی سے خریدا اور مفت میں مسلمانوں کے لیے وقف کر دیاغزوہ تبوک کا واقعہ اس موقعہ پر آپ صلی الله عليه وسلم نے اعلان کیا کہ کوئی ہے جو اپنا مال الله کی راہ میں دے۔ حضرت عثمان نے سو اونٹ دیے۔ آپ صلی الله عليه وسلم نے دو دفعہ دوبارہ یہی اعلان کیا تو آپ نے مزید دو سو اونٹ اللہ کی راہ میں دیے جس پہ آپ صلی الله عليه وسلم نے فرمایا۔”آج کے بعد کوئی عمل عثمان کو نقصان نہیں پہنچائے گا”
غلے کے اونٹ :
حضرت عمر کے دور خلافت میں مدینہ میں شدید قحط آیا تو حضرت عثمان نے اپنے غلے سے لدے ہوئے اونٹ لوگوں میں تقسیم کر دیے اور اپنا منافع آخرت میں الله کے ذمے فرمایا۔ جیش قسرہ کے موقع پر آپ نے ۱۰۰۰ دینار الله کی راہ میں وقف کیے ۵
۔سادہ طرزِ زندگی
Very beautifully narrated
MashaAllah✨
Aameen summa aameen ❤
Such an articulate choice of words ma sha Allah ✨
Masha Allah beautiful ❤️