The Just Ruler.

Let’s learn about Hazrat Umar (R.A)

عشرہ مبشرہ میں شامل خلیفہ دوم حضرت عمر بن الخطاب خطاب رضی اللّٰہ عنہ ولد الخطاب بن نفیل افق اسلام کے ان درخشندہ تاروں میں سے اک ہیں جن سے دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں خوف کھاتی تھیں جن کی عاجزی بے مثال تھی جن کا عدل لاجواب تھا تھا ۔ جن کا نام ہی دشمنوں پر خوف طاری کرنے کے لیے کافی تھا۔ آئیں ایسی عظیم ہستی کی زندگی کے سبق آموز پہلو پر ذرا غور کرتے ہیں

۔دعا کی طاقت:

دعا دل سے نکلی ہو تو عرش تک جاتی ہے ۔دعا ہی تو ہے جو تقدیر بدل کے رکھ دیتی ہے۔ زمانہ جاہلیت میں اسلام کے دشمنوں میں سے تھے لیکن رسول اللّٰہ کی دعا کا اثر تھا جو اسلام کے علم بردار بن گئے اور علمبردار بھی ایسے کے اسلام کی طاقت دوبالا ہوگئی۔

” رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللّٰہ! ان دونوں یعنی ابوجہل اور عمر بن خطاب میں سے جو تجھے محبوب ہو اس کے ذریعہ اسلام کو طاقت و قوت عطا فرما“، آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو ان دونوں میں سے عمر اللّٰہ کے محبوب نکلے“۔ (ترمزی:3681)

بہادری اور شجاعت:

آپ رضی اللّٰہ عنہ کا اک بنیادی وصف شجاعت تھا ۔ آپ رضی اللّٰہ عنہ نے مختلف غزوات میں شرکت کی اور آپ کا نام ہی دشمنوں پر لرزہ طاری کرنے کے لیے کافی تھا ۔ اور یہ شجاعت اللّٰہ پر کامل ایمان کی وجہ سے تھی ۔ آپ رضی اللّٰہ عنہ کی بہادری کا یہ عالم تھا کہ شیطان بھی آپ سے خوفزدہ ہوتا تھا اور جس راستے پر آپ رضی اللّٰہ عنہ ہوتے تھے وہ راہ ہی بدل دیتا تھا۔

“عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ اس وقت آپ کے پاس قریش کی چند عورتیں ( امہات المؤمنین میں سے ) بیٹھی باتیں کر رہی تھیں اور آپ کی آواز پر اپنی آواز اونچی کرتے ہوئے آپ سے نان و نفقہ میں زیادتی کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ جوں ہی عمر رضی اللّٰہ عنہ نے اجازت چاہی تو وہ تمام کھڑی ہو کر پردے کے پیچھے جلدی سے بھاگ کھڑی ہوئیں۔ آخر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اجازت دی اور وہ داخل ہوئے تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے۔ عمر رضی اللّٰہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللّٰہ! اللّٰہ تعالیٰ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو ہمیشہ خوش رکھے۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے ان عورتوں پر ہنسی آ رہی ہے جو ابھی میرے پاس بیٹھی ہوئی تھیں، لیکن تمہاری آواز سنتے ہی سب پردے کے پیچھے بھاگ گئیں۔ عمر رضی اللّٰہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللّٰہ! ڈرنا تو انہیں آپ سے چاہیے تھا۔ پھر انہوں نے ( عورتوں سے ) کہا اے اپنی جانوں کی دشمنو! تم مجھ سے تو ڈرتی ہو اور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتیں، عورتوں نے کہا کہ ہاں، آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے مقابلے میں آپ کہیں زیادہ سخت ہیں۔ اس پر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابن خطاب! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر شیطان تمہیں کسی راستے پر چلتا دیکھتا ہے تو اسے چھوڑ کر وہ کسی دوسرے راستے پر چل پڑتا ہے۔ “(صحیح البخاری:3683)

عاجزی: 22 لاکھ 51 ہزار اور تیس مربع میل کے حاکم جن کے پاس خزانے کی کوئی کمی نہ تھی ان کی عاجزی کا عالم تو یہ تھا کہ ان کے لباس میں پیوند لگے ہوتے تھے۔ کہیں دیکھی ہے ایسی عاجزی کہ اک دنیا تابع ہے لیکن کوئی نمودونمائش نہیں ہے ۔

عدل وانصاف:

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عدل و انصاف بھی بے مثال تھا ان کی عدالت میں مسلم اور غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف دیا جاتا تھا ان کا عدل بھی ان کے لقب “فاروق” کی دیگر وجوہ تسمیہ کی طرح اک بڑی وجہ تھی ۔آپ رضی اللّٰہ رات کو گلیوں میں گشت کرتے تھے کہ کسی کو کسی چیز کی ضرورت نہ ہو تاکہ روز محشر ان سے اس چیز کا حساب نہ لیا جائے اور کسی کے ساتھ کوئی ناانصافی نہ ہو

۔” جو ریاست مجرموں پر رحم کرتی ہے وہاں کے بے گناہ لوگ بے رحمی سے مرتے ہیں”(حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ)

ہمارے سپر ہیرو حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ کی زندگی سے ہم نے یہ سیکھا کہ جب اللّٰہ پر ایمان لایا جاتا ہے تو اس کے بعد پلٹ کے نہیں دیکھا جاتا اور اللّٰہ کی رضا کو مقدم رکھا جاتا ہے ۔ عزت کا معیار ذات و نسب اور دولت نہیں ہے بلکہ بڑائی کا معیار صرف تقویٰ ہے۔ اور جتنا بڑا عہدہ ہوتا ہے اتنی ہی زیادہ اس کی جوابدہی ہوگی اور اس کی جواب دہی سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے احسن طریقے سے نبھایا جائے اور اللّٰہ کی رضا کے لئے کام کیا جائے۔ اور جب اللّٰہ کی رضا کو مقدم رکھا جاتا ہے تو پھر دنیا آپ کے قدموں میں ہوتی ہے۔ اور اللّٰہ آپ کو ایسے اعزاز و عزت سے نوازتا ہے جس کا آپ کو گمان بھی نہیں ہوتا۔اللّٰہ ہم سب کو اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا نصیب فرمائے آمین ۔

Written by Muskan Malik

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

0 thoughts on “The Just Ruler.”

Aslamualykum!
Scroll to Top