Let’s learn the true meaning of love.
زندگی میں بعض واقعات بہت نا گہانی طور پر رونما ہوتے ہیں۔ زندگی میں بعض لوگ بھی بہت غیر معمولی طرح سے متعارف ہوتے ہیں۔اور جب ایسا ہوتا ہے۔۔تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ۔۔ یہ زندگی کس قدر سرپرائزز سے بھری ہے۔ان سے ملنا میرے لیے ایک ایسا ہی سرپرائز تھا۔ان کا سیشن اٹینڈ کرنا بھی بہت غیر ارادی سا عمل تھا۔وہ کون تھیں؟ “اسلامیات” پڑھانے والی ایک ٹیچر۔۔جن سے میرا کوئی خاص تعلق نہیں تھا۔کالی چادر میں اپنا آپ ڈھانپے وہ بہت باوقار دکھتی تھیں۔ایسی کہ دل ان کے متعبر ہونے کی گواہی دے۔وہ میرے سامنے تھیں۔۔۔۔اور میں؟ میں کیوں تھی وہاں؟ کون سے تلاش وہاں تک لے آئی تھی؟ وہ مجسمہ سماعت بنی میرے الفاظ کی منتظر تھیں۔اور الفاظ۔۔وہ تو ایک عرصے سے اپنا دامن چھڑا چکے تھے۔مگر نگاہوں کی زبان واضح ہوئی اور دل نے داستان سنانا شروع کردی۔میں ان سے کیسے کہتی کہ۔۔۔”اللہ اور اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کو ماننے کے باوجود مجھے زندگی کی سمجھ نہیں آ رہی۔۔! قرآن جیسی کتاب کے علم کے باوجود مجھے سکون نہیں مل رہا۔۔! اسلامک سٹوڈنٹ ہونے کے باوجود میں کہیں کھو گئی ہوں۔۔اتنا علم ہے، عمل ہے مگر یوں لگتا ہے۔۔جیسے کچھ نہیں ہے۔۔!” ایسی باتیں اور اس جیسی بہت سی باتیں۔وہ خاموشی سے مجھے سن رہی تھیں۔بات ختم ہوئی۔اب وہ مجھے دیکھ رہی تھیں۔پھر انہوں نے لب کھولے، “جو اللہ یہاں تک لایا ہے وہ آگے بھی لے جائے گا۔جس نے اس مشکل میں ڈالا ہے، وہی اس سے نکالے گا.کیونکہ بس وہی قادر المطلق ہے۔ چلو، رب تعالی سے ہی پوچھتے ہیں۔ ” ایک کتاب میری طرف بڑھاتے وہ گویا ہوئیں۔وہ “مصحف” تھا۔ وہ اللہ کی کتاب تھی۔وہ مجھے اس “رب” سے رجوع کرنے کو کہہ رہی تھیں! وہ چاہتی تھیں وہ اللہ مجھے راستہ دکھائے! وہ چاہتی تھیں کہ میں اللہ سے جواب طلب کروں! کیا انہیں لگتا تھا کہ میں نے ایسا نہیں کیا؟؟ اس رب سے بارہا رجوع کر کے، بارہا کوشش کرکے ، تھک ہار کر۔۔ پھر میں ان تک آئی تھی۔ کیا انہیں لگتا تھا میں نےاس مشکل سے نکلنے کے لئے محنت نہیں کی؟! دل کچھ اور بجھ سا گیا۔۔ مگرکیا آج میرے لیے اس میں کچھ تھا؟! کیا آج اللہ مجھ پر رحم کرےگا؟! ویران نگاہیں ان پر جمائے میں نے وہ کلام پاک تھام لیا۔دل کی رفتار مدھم ہوئی ، یوں جیسے یہ ابھی تھم جائے گا۔ان کا وقت ضائع نہ کرتے میں نے اللہ کی کتاب سے رجوع کیا،جیسا کہ کیا جانے کا حق تھا۔اور پھر۔۔۔’سانس ساکن ہونا ‘ کیسے ہوتی ہے، پتا چل رہا تھا۔ ‘دل کا تھم جانا’ کسے کہتے ہیں، سمجھ آ رہا تھا۔ایک دم سے بہت سا پانی آنکھوں میں بھر آیا۔۔۔آیت میرےسامنے تھی۔ میرے حصے کی آیت۔۔میرے حصے کا پیغام۔۔میرے لیے بھیجا گیا پیغام۔۔وہ اللہ کے الفاظ تھے۔۔وہ اللہ نے اتارے تھے۔۔اور آج وہ میرے لیے تھے۔۔اللہ فرما رہا تھا۔۔
•یَقُوۡلُ یٰلَیۡتَنِی اتَّخَذۡتُ مَعَ الرَّسُوۡلِ سَبِیۡلًا•”
اور کہیں گے ، کاش ہم رسولﷺ سے کوئی واسطہ رکھتے!”(سورۃ الفرقان)
اور سماں تھم گیا تھا۔ساکت و جامد!
•یَقُوۡلُ یٰلَیۡتَنِی اتَّخَذۡتُ مَعَ الرَّسُوۡلِ سَبِیۡلًا•”اور کہیں گے ، کاش ہم رسولﷺ سے کوئی واسطہ رکھتے!”(سورۃ الفرقان)
دور کہیں عالم رویا میں روح کی فریاد گونجی تھیں۔ہر چیز مجسمہ خزن ہو گئی تھی۔اللہ کیا دکھا رہا تھا۔کیسے دکھا رہا تھا۔کہاں دکھا رہا تھا۔۔۔۔”کیا واسطہ ہے آپ کا اللہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم سے؟”وہ پوچھ رہی تھیں۔۔۔اور جواب نہیں تھا۔کہیں بھی نہیں تھا۔اف خدایا!!!!!بات کہاں جا نکلی تھی۔۔کون سی رگ پکڑی تھی خدا نے۔۔یا اللہ!! بہت سارا پانی آنکھوں سے بہنے لگا۔ٹپ۔۔ٹپ۔۔ٹپکیا وہ صرف پانی تھا۔۔۔؟ یا کچھ “ندامت” بھی تھی؟ کون سی شے کہاں سمجھ آ رہی تھی۔۔۔زندگی کے اتنے بے شمار شب و روز کے بعد ، خدا نے کہاں پھینکا تھا۔منہ کے بل گری بھی تو کہاں گری۔۔۔•”اور کہیں گے، کاش ہم رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم سے کوئی واسطہ رکھتے!”•”کیا واسطہ ہے میرا اللہ کے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم سے؟”سوچنا نہیں پڑا ، جواب واضع تھا۔۔”یہی کہ وہ اللہ کے محبوب نبی ہیں۔خاتم النبیاء ہیں۔اور میں ان کی امتی ہوں۔۔وہ میرے نبی ہیں۔وہ میرے آقا ہیں۔جن کی سنت پہ میں چلتی ہوں۔اور جن پر میں درود بھیجتی ہوں۔۔۔اور۔۔۔جن سے مجھے محبت و عقیدت ہے۔۔”اور بس؟؟ضمیر کی عدالت لگ چکی تھی۔”محبت و عقیدت ؟” “کیا ‘واقعی’ ہے؟”‘ہاں۔۔اللہ کی قسم۔۔بہت محبت ہے۔بہت زیادہ!'”تو کیا کبھی تم نے اس محبت کی مٹھاس کو محسوس کیا ہے؟”‘محبت کی مٹھاس کو محسوس۔۔۔؟'”کیا تم نے کبھی انہیں بتایا ہے کہ تمہیں ان سے بے حد محبت ہے؟””کیا کبھی تم نے ان کی محبت میں ان کے لیے “کچھ” کیا ہے؟ کوئی عمل ؟ کوئی نیکی؟”اور بس۔۔۔بات ختم ہو گئی۔سمجھ آگئی۔وہ جو اللہ کے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم ہیں ناں۔۔جو محبوب ہیں اللہ کے۔۔۔انہیں محبوب بنائے بنا کچھ نہیں ملنے والا۔۔۔۔جس سکون۔۔جس چین۔۔جس کامیابی کے لئے ہم دوڑتے ہیں ناں۔۔وہ انہیں محبوب بنانے میں ہیں۔•”کاش ہم رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم سے کوئی واسطہ رکھتے!”•امتی ہونا۔۔محبت کا دعویٰ کرنا۔۔کافی نہیں ہے۔جب تک ان کی محبت کی تپش دل میں محسوس نہ ہو۔۔۔جب تک دل ان کی محبت میں تڑپ نہ جائے۔۔۔محبت نہیں ہے۔جب تک یہ “احساس” نہ ہو کہ میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم ، میرے آقا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے میرے میرے لیے کیا کیا ،کیا ہے۔۔اور مجھے ان کے لیے کیا کیا کرنا ہے۔۔۔محبت نہیں ہے۔”•کاش ہم رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم سے کوئی واسطہ رکھتے!”•میڈم کہہ رہی تھیں۔۔اللہ کے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا تھا : “تمہارا ایمان تب تک مکمل نہیں ہو سکتا ، جب تک میں تمہیں تمہارے مال اور اہل و عیال سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں!”محبوب کا لفظ عربی زبان کے لفظ “حب” سے نکلا ہے.”حب” کے معنی ہیں ، “محبت۔۔یعنی کسی شے جا بے حد پسند آ جانا، عزیز ہو جانا”۔ اور محبوب کہتے ہیں “جس سے محبت کی جائے”۔سو محبوب وہ ہوتا ہے جس سے محبت کی جائے۔ جو ںہت عزیز ہو۔نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم فرما رہے ہیں کہ : “تم ایمان والے نہیں ہو سکتے ، جب تک کہ مجھ سے سب سے زیادہ محبت نہ کرو۔”سب سے زیادہ۔۔ہر شے سے۔۔اپنی اولاد سے زیادہ۔۔اپنے مال سے زیادہ۔۔اپنی جان سے زیادہ۔۔۔تمہیں کیا لگتا ہے، اللہ کے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم، جن سے اللہ محبت کرتا ہے، محبوب ترین نبی ص۔۔۔انہیں ہماری محبت کی ضرورت ہے؟!”الفاظ موتی موتی دل کی زمیں پر گر رہے تھے۔۔”انہیں ہماری نہیں۔۔ہمیں ان کی ضرورت ہے۔ہمیں ان کی محبت کی ضرورت ہے۔اللہ کہتا ہے، “دلوں کا سکوں اللہ کے ذکر میں ہے۔”کبھی سوچا ہے، جس اللہ کا “ذکر” ہم کرتے ہیں، وہ کس کا ذکر کرتا ہے؟؟؟”اللہ اور اس کے فرشتے یقینا نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم پر درود بھیجتے ہیں۔”ہمارا سکون اللہ کے ذکر میں ہے ، اور اللہ ، اپنے محبوب نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کا ذکر کر رہا ہے۔۔جن کا ذکر اللہ کر رہا ہے، انہیں ہماری محبت کی کیا ضرورت!! مگر پھر بھی۔۔وہ ہم سے محبت کرتے ہیں۔اس لئے نہیں کہ ہم کوئی بہت بڑے “مومن” ہیں، کوئی “ولی اللہ” ہیں۔۔کچھ بھی تو نہیں ہیں ہم۔۔پھر اللہ کے محبوب نبی ص ہم سے محبت کرتے ہیں۔کیسی خوش بختی ہے یہ۔۔اور کیسی بد بختی ہے یہ۔۔کہ ہم ان سے محبت نہیں کرتے جیسا کہ کرنے کا حق ہے۔وہ ایک پل رکی۔۔گال پر بہتے آنسو صاف کیے۔پھر گویا ہوئیں.”اللہ فرماتا ہے:”اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو جیسے بھیجنے کا “حق” ہے۔”یہ جو “حق”ہے ناں۔۔۔اسے سمجھنا بہت ضروری ہے۔ہم درود بھیجتے ہیں، مگر حق ادا نہیں کرتے۔۔۔تبھی قرآن میں ایک جگہ اللہ کہتے ہیں :حق دار کو اس کا حق دے دو۔ اور جو ایسا نہیں کرتا، وہ ظالم ہے۔ہمیں تو ابھی تک یہی سمجھ نہیں آیا بچے کہ ۔۔ نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کا حق کیا ہے؟ ہم ادا کیونکر کریں گے!”وہ رکیں۔ اک گہرا سانس بھرا۔۔جیسے الفاظ ختم ہو گئے ہوں۔میں نے سر جھکا دیا۔•”کاش ہم رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم سے کوئی واسطہ رکھتے!”• “صحابہ رضہ کس قدر خوش نصیب تھے۔اپنے آقا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی محبت سے سرشار۔۔ان کے اتنے قریب۔۔ان کے دل تو بہت روشن ہونگے، نبی کی محبت صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم سے روشن۔”میرے الفاظ ٹوٹ گئے۔۔۔اور وہ مسکرائیں۔”صحابہ رضہ۔۔۔کوئی پاس رہ کر بھی ابو جہل ہی رہا اور کوئی دور رہ کر اویس قرنی بن گیا۔۔۔تمہیں لگتا ہے ، وہ تم سے بہت دور ہیں۔۔وہ تمہیں سن نہیں رہے۔۔سمجھ نہیں رہے۔۔؟!دور وہ نہیں ہیں۔۔دور تم ہو۔ یہ فاصلہ تمہارا پیدا کردہ ہے۔ اسے ختم بھی تمہیں ہی کرنا ہے۔کیا کبھی تم نے ان سے رابطہ کیا ہے۔؟میں نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔”رابطہ۔۔؟” یہ کیا کہہ رہی تھیں وہ؟ یہ کیا کوئی ٹیلیفونک سسٹم تھا کہ رابطہ ہو جائے گا۔مجھے مجسمہ حیرت دیکھ کر بہت پیاری مسکراہٹ ان کے چہرے پر نمودار ہوئی۔۔”ہمارے پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم ، جن تک ہمارا درود پہنچتا ہے، کیا ان تک ہماری باتیں نہیں پہنچ سکتیں؟!”اوو۔۔۔ وہ بتا رہی تھیں۔۔”نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم بہت خاص ہیں۔وہ اللہ کے محبوب ہیں۔اللہ نے کسی کو یوں اپنا محبوب نہیں کہا۔۔۔۔تم اللہ سے محبت کے دعویدار ہو، مگر تمہیں اللہ کے محبوب سے محبت نہیں ہے۔۔۔ایسا نہیں ہوتا۔دیکھو بچے، جس سے محبت ہو، اس کی محبت سے بھی محبت ہوتی ہے۔اور جب تک محبت “محسوس” نہ ہو۔۔وہ محبت نہیں ہے۔ میں نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔۔”لیکن مجھے ان سے محبت ہے۔ بے حد ہے۔”میں نے اسرار کیا۔وہ مسکرائیں، جیسے کسی نادان بچے کی بات پر مسکراتے ہیں۔اب وہ اس نادان بچےکو سمجھا رہی تھیں۔”محبت کیا ہے؟ محبت ایک “احساس ہے۔اور احساس کو محسوس کیے جانا ضروری ہے۔جب تک احساس “محسوس” نہیں ہوگا، اس کا کوئی معنی نہیں ہوگا۔”یہ بات آپ ذہن سے نکال دیں کہ آپ کوئی ایسا کام کریں گے، جس سے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے منع فرمایا ہے، اور پھر بھی نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم سے محبت کا دعویٰ کریں گے تو ، آپ بہت بڑے عاشق رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم ہیں۔۔”نہیں”۔۔۔چلیں آپ نہیں ولی اللہ۔ ہو جاتیں ہیں غلطیاں۔۔لیکن کوشش کرنے میں تو جان لگا سکتے ہیں ناں۔ان سے خود جو جوڑنے کی کوشش تو کر سکتے ہیں۔ان سے محبت و عقیدت رکھنے کی کوشش تو کر سکتے ہیں۔۔لیکن ہمارے پاس تو ان کے لیے وقت ہی نہیں ہے!! انہیں یاد کرنے کی فرصت کسے ہیں!! ان کی سیرت پڑھنے کی فرصت کسے ہے، اس پر چلنا تو بہت دور کی بات ہے۔۔۔!”کتنی کڑوی حقیقت تھی، لیکن حقیقت تھی۔ “ہمیں اپنی priorities ٹھیک طرح سے سیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔اپنی محبت کی ڈیفینیشن درست کرنے کی ضرورت ہے۔۔ہم کہتے ہیں، باتوں سے زندگی نہیں گزرتی۔ واقع نہیں گزرتی۔جتنی جلدی ہو سکے، اس سچ کوتسلیم کرلیں۔ اپنے عقیدہ رسالت کو درست کرلیں۔ان سے محبت کا حق ادا کر دیں۔۔۔اور جب آپ کو محبت “محسوس” ہوگی، جب آپ کو اس کا “احساس” ہوگا، تو آپ وہ کام نہیں کریں گے جن سے آپ کے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے منع فرمایا ہے۔نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم سے محبت کئے بنا اللہ کی محبت نہیں مل سکتی۔اور ایک مومن کو اللہ کی محبت کے بنا سکون نہیں مل سکتا۔”انہوں نے کتنی صاف بات کہہ دی تھی۔ایک دم کوری۔۔روش آسمان جیسی واضع۔۔جواب مل گیا تھا۔اب وہ جانے کے لئے اٹھ رہی تھیں۔اپنا پرس تھامتے وہ کہہ رہی تھیں۔۔•”کاش ہم رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم سے کوئی واسطہ رکھتے!”•”میں نہیں جانتی کہ آپ واسط رکھنا کسے کہتے ہیں۔مگر میرے لیے تو واسطہ رکھنا ایسا ہے کہ، بس انسان ان کا دامن تھام لے۔ان کی راہ چن لے۔اپنی زندگی ان کے نام کر دے۔ان کی یاد میں کھو جائے۔ بس ان کا ہو جائے۔وہ کہتے ہیں ناں۔۔۔”محبت میں “میں” نہیں ہوتا۔۔”تم” ہوتا ہے۔”بس اتنی سی بات ہے۔۔۔”•”کاش ہم رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم سے کوئی واسطہ رکھتے!”•”سو آپ کا کیا واسطہ ہے رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم
Well written MASHALLAH!! MAY Allah SWT make us all among those who are truly followers of Prophet Muhammad (S.A.W )
What a masterpiece ma sha Allah ????❤
Bht khoobsurti or asani se baat smjhai hai Ma’sha’allah ????♥️ Dil pe asar kia hai is tehreer ne.
بہت خوبصورت تحریر ماشاءاللہ ❤️
Jazakillah….. Pure words beautifully woven ❤️❤️