فلسطین تنازعہ اور بین الاقوامی کردار

اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ جنگ کے ذریعے امن لا سکتا ہے تو شاید یہ ایک نادانی ہے۔ انسانی تاریخ جنگوں سے بھری پڑی ہے اور کئی اوراق معصوموں کے خون سے لہو لہو ہیں۔ دور حاضر میں بھی انسانیت اس عذاب سے جان نہیں چھڑا پائی۔ ہر فرد اور قوم کے مفادات ہی جنگ کے لیے چنگاری ثابت ہوتے ہیں چونکہ جنگ کے دوران ہر فرد خود کو حق پر سمجھتا ہے تو وہ دوسرے کی شکست کو ہی فیصلہ کن جانتا ہے اسی سبب قوموں کو کئی دہائیوں تک جنگوں کا سامنا رہا ہے

موجودہ دور میں کئی ممالک میں جنگ کے اثرات مسلسل نظر اتے ہیں مگر ان میں نمایاں فلسطین میں جاری جنگ کا تنازعہ ہے۔ کئی دہائیوں سے معصوم لوگوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔ بچے، بوڑھے ،جوان، عورتیں کوئی بھی ان مفادات کی آتش کی زد سے نہیں بچ پایا۔ اس جنگ کے سلسلے میں مختلف عالمی اقوام بالخصوص مسلم اور عرب قوم کا رویہ قابل ذکر ہے۔

١٩٧٤ میں فلسطینی سرزمین پر انٹرنیشنل فورم کی جانب سے اسرائیلی وطن بنانے کی اجازت دی گئی جس پر عرب ممالک نے شدید احتجاج کیا کیونکہ یہ اقدام ان کو عرب ممالک اور اسلام کی عظمت پر حملے کے مترادف لگا۔ اسی سلسلے میں عرب ممالک بشمول مصر ، اردن اور سعودی عرب ، نے اسرائیل پر حملہ کر دیا اس جنگ میں مغرب ممالک نے اسرائیل کا بھرپور ساتھ دیا اور عرب کے حملے کو ناکام بنا دیا۔مغربی ممالک نے اس تنازے میں ہمیشہ اسرائیل کی طرف پلڑا جھکائے رکھا اور ابھی تک نیشنل اسمبلی میں حماس کے خلاف جنگ کو جاری رکھنے پر قرارداد پاس کی گئی

شکست کے باوجود عرب ممالک اسرائیل کو کسی صورت قبول نہ کرنے پریکجا ہوئے۔ اور جا بہ جا اسرائیل کو مٹانے کے لیے حملے کرتے رہے مگر کہیں سے کسی کامیابی کی بجائے کچھ اور علاقے بھی اسرائیل کے قبضے میں چلے گئے جس سے لاکھوں فلسطینیوں کو بے گھر ہونا پڑا۔ وقت کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سیاست کا اونٹ دوسری کروٹ بیٹھنے لگا جس سے ممالک کی دلچسپیاں بھی بدلنے لگی۔

اردن کا ایک بڑا حصہ اسرائیل کے بارڈر کے ساتھ لگتا تھا۔مغرب میں تجارت کا رجحان بڑھ رہا تھا تو اردن کی حکومت نے بھی تجارت کی غرض سے مغرب کے سامنے گھٹنے ٹیکے اور اسرائیل کے خلاف تمام تر جذبات جیو پولیٹکس کی نظر کر دیے اور اردن نے بھی اسرائیل کو قبول کر لیا اسی دوران یہ معاہدہ طے پایا کہ فلسطین سے ہجرت کر کے آنے والے فلسطینی لوگ یہاں اردن کی قومی شناخت کو قبول کریں گے نہ کہ وہ اس سرزمین کو فلسطین کا حصہ سمجھیں گے۔

مغرب میں تجارت کی کھپت نے ممالک کی دلچسپی کو اپنی طرف کھینچا،ہر قوم کو مستحکم مستقبل مغرب کی تجارت میں نظر آ رہا تھا اسی دستور پر عمل پیرا ہو کر دوسرے ممالک یو اے ای، سوڈان اور ترکی نے بھی جلد ہی اسرائیل کو ایک قومی وطن کے طور پر قبول کر لیا۔

یوں ممالک کا رجحان اسرائیل کی طرف بڑھتے دیکھ کر یو-این نے سعودی عرب کو بھی اسرائیل سے تعلقات کی پیشکش کر دی اس کے جواب میں سعودیہ نے چند معاہدوں کی یقین دہانی چاہی کہ؛ مغرب انہیں بیرونی حملوں سے بچاؤ کے لیے سیکیورٹی دے، جدید ٹیکنالوجی اور نیوکلیئر پروگرام بھی مہیا کرے۔ ان معاہدوں پر کام جاری ہے اور آنے والے وقتوں میں سعودیہ بھی اسرائیل کو قبول کرتا نظر آتا ہے۔

ایران نے اسلامی انقلاب کے بعد کھل کر اسرائیل کی مخالفت کی اور کسی صورت بھی اسے قبول نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایران مختلف جہادی تنظیموں کی سرپرستی کرتے ہوئے اسرائیل سے دست و گریبان ہوتا رہا ہے اور موجودہ تنازعہ میں بھی ایران کی طرف سے کچھ حملے ہوئے۔ ایران مختلف ممالک میں مختلف تنظیموں کے ذریعے اسرائیل کے خلاف محاذ کھولے ہوئے ہے اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ مسلم اتحاد قائم کرے گا اور اسرائیل کے خاتمے تک مزاحمت جاری رکھے گا۔

اس تمام تر معاملے میں پاکستان کا کردار واضح طور پر کبھی سامنے نہیں آیا ، کبھی بین الاقوامی رد عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ نہیں لیا، اگرچہ پاکستان نے ابھی تک اسرائیل کو قبول نہیں کیا۔ حکومتِ پاکستان نے اس تنازعے میں کوئی مزاحمتی اقدام نہیں کیا اور پاکستانی قوم صرف نعروں کی گونج سے مطمئن ہو رہی ہے اگرچہ ان نعروں سے پاکستان کے اپنے اندرونی مسائل بھی کبھی حل نہیں ہو پائے۔

١٩٩٤میں ویسٹ بینک میں “فلسطین لبریشن ارگنائزیشن” نے اقتدار سنبھالا تو اس کے صدر یاسر عرفات نے اسرائیل سے “ٹو سٹیٹ ماڈل” کے ذریعے امن معاہدہ کیا مگر اس معاہدے میں فلسطینی زمین کو واپس کرنے میں اسرائیل ٹال مٹول کرتا رہا ان کا موقف تھا کہ جہاں اسرائیل کالونیاں بن چکی وہاں سے وہ اپنا اقتدار نہیں اٹھائیں گے۔ اسی رویے کے سبب عوامی جذبات مجروح ہوئے اور پھر صدر یاسر عرفات کے قتل کے بعد حالات مزید بگڑے اور دوبارہ سے اسرائیل فلسطین کشیدگی بڑھنے لگی۔

دوسری جانب غزّه پٹی پر حماس کے اقتدار میں آنے کے بعد حماس نے اسرائیل کو مٹانے کی جدوجہد کا آغاز کیا اور دہائیوں سے یہ جھڑپیں جاری ہیں۔

یہ یک طرفہ تبصرہ بھی ہو سکتا ہے اور حقائق اس کے برعکس بھی ہو سکتے ہیں مگر اس سب سے نتائج مختلف نہیں آئیں گے ہر کسی نے اتحاد کی بجائے انفرادیت کو ترجیح دی جس کے سبب دہائیوں سے معصوم لوگ جنگ کی چکی میں پس رہے ہیں۔

نہ جانے کب بین الاقوامی ادارے اور تمام ممالک اس تنازع پر سنجیدگی اختیار کریں گے اور معصوموں کی جانیں ضائع ہونے سے بچ پائیں گی۔

تحریر

علی زبیر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Aslamualykum!
Scroll to Top